سطح سمندر سے ساڑھے تین ہزار میٹر کی بلندی پرتعمیر کیا گیا ریلوے سٹیشن پوری دنیا کی توجہ کا مرکزبن گیا

برسلز (این این آئی)سوئٹزرلینڈ کا یْنگ فراؤ ریلوے اسٹیشن کوہ ایلپس میں واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے قریب ساڑھے تین ہزار میٹر کی بلندی پر تعمیر کیا گیا ہے اور اسے ایک تکنیکی شاہکار خیال کیا جاتا ہے۔اگست 1893 میں سوئس صنعت کار اڈولف گوئر سیلر نے ایک دلیرانہ فیصلہ کیا کہ ایک ریلوے ٹریک مکمل کیا جائے جو کوہ ایلپس کی بلند چوٹی تک جائے۔ اس چوٹی کیسطح سمندر سے بلندی چار ہزار ایک سو اٹھاون میٹر (13641 اکتالیس فٹ) اور نام یْنگ فراؤ (Jungfrau) ہے۔اس چوٹی کو پہلی مرتبہ سن 1811 میں سر کیا گیا اور اس

کے قریب بیاسی برس بعد ریلوے لائن بچھانے کے خواب کو تعبیر ملنے کا سلسلہ شروع ہوا۔یہ ریلوے ٹریک کھدائی شروع کرنے کے سولہ برس بعد مکمل ہوا۔ ریلوے لائن اس بلندی تک نہیں پہنچ سکی جس کا خواب اڈولف گوئر سیلر نے دیکھا تھا۔ یہ صرف تین ہزار چار سو چون میٹر (گیارہ ہزار تین سو بتیس فٹ) پر واقع Jungfraujoch کے مقام تک ہی پہنچ پائی۔اس ریل ٹریک کی تعمیر کو آج بھی انجینیئرنگ کا شاہکار قرار دیا جاتا ہے۔ اس میں نو کلو میٹر کا نصف، سرنگ والا ٹریک ہاتھوں سے کھودنا پڑا تھا۔ سوئٹزرلینڈ کے قومی دن یعنی یکم اگست کو اولین ریل گاڑی نے اس ٹریک پر سفر کیا تھا۔ڈوئچے ویلے کے رپورٹر ہینڈرک ویلنگ نے یورپ کے اس بلند ترین ریلوے اسٹیشن تک جانے کے سفر کا احوال ٹی وی کے یورومیکس ثقافتی پروگرام میں بیان کیا۔ اس ریل گاڑی کا نام یْنگ فراؤ ٹرین ہے۔ہینڈرک ویلنگ نے بلند ترین اسٹیشن پر پہنچ کر سارے منظر کو انتہائی شاندار قرار دیا۔ اس منظر کو انہوں نے ایلپائن پینوراما کا نام دیا۔ اس مہماتی سفر کے دوران وہ تعمیر کے کئی حیران کن اور دلچسپ حقائق بھی جان پائے۔اس ریل گاڑی کا یک طرفہ سفر صرف آدھ گھنٹے کا ہے۔ اس سفر میں ٹرین قریب چودہ سو میٹر کی بلندی طے کرتی ہے۔ اسی سفر میں ایک اسٹیشن آئسمیر بھی ہے، جہاں ٹرین کچھ دیر کے لیے رکتی ہے۔ اس اسٹیشن پر سیاح اتر کر ارد گرد کے ماحول اور راستے کو دیکھ کر زیادہ لطف اٹھا سکتے ہیں۔ آئسمیر ریلوے اسٹیشن سے سیاحوں کو ایلپس کی کئی دوسری بلند پہاڑی چوٹیوں کا نظارہ کرنے کا موقع بھی ملتا ہے۔ریل گاڑی کا سفر سرنگ میں بنے اسٹیشن پر ختم ہوتا ہے۔ موسم اچھا ہونے کی صورت میں کوہ ایلپس کی قریب دو سو چوٹیاں بھی اس مقام سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ یْنگ فراؤ اورمؤنش کی چوٹیاں تو قریب ہیں اور برف سے ڈھکی ہوئی ہوتی ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں