سکوت میں عافیت ہے!

ایک دفعہ پروفیسر شفیق صاحب کلاس میں فرما رہے تھے کہ دماغ کو ہوش و حواس میں رکھ کر مکمل انہماک سے گفتگو کیا کریں کیوں کہ ہر بات بتانے کی ہوتی ہے نہ سننے کی۔ وہ مثال دیتے کہ گفتگو کی مثال ہوا کی سی ہے جب زبان سے بات نکلی تو ہوا کی طرح بکھر کر اردگرد خود بخود پھیل جاتی ہے۔ اس لیے ہر بات دوسروں کے سامنے اگلنے کی بجائے دل میں دفن ہو تو بہتر ہے۔ اپنا راز بتانے سے انسان کی آبرو اکثر خاک میں مل جاتی ہے۔

آج ہمارے سماج میں معمولی معمولی باتوں پہ قطع تعلقی عام ہوچکی ہے۔ دو بھائیوں میں لگائی بجھائی کرکے رشتوں میں دراڑیں ڈالنا جیسے ہماری گھٹی میں شامل ہو چکا ہے۔ ہم خود خوش رہنا چاہتے ہیں نہ دوسروں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ سکوت کے بے شمار دنیوی و اخروی فوائد ہیں۔ ہر وقت بلاوجہ بولتے رہنے سے جھوٹ، غیبت، چغلی، بہتان اور الزام تراشی جیسے مہلک روحانی امراض جنم لیتے ہیں۔ زبان کو بے جا گفتگو سے باز رکھ کر خاموشی کا تالا لگانا اتنا ہی ضروری ہے، جتنا روزے میں خود کو کھانے پینے کی اشیاء سے دور رکھنا۔ اس لیے ہر وقت زبان بندی کا روزہ رکھنے میں کامیابی پوشیدہ ہے۔ زبان کو لغویات سے محفوظ کرکے ذکر و درود سے تر کرنے میں نجات ہے۔ بے جا گفتگو سے درج ذیل نحوستیں پھیلتی ہیں: اگر کسی کی غیر موجودگی میں برائی کی تو غیبت کرکے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے حق دار بنے، کسی پر تہمت لگائی تو دوسروں کے گناہ اپنے گلے میں ڈالنے کے مستحق ٹھہرے، اگر کسی کے ساتھ مبالغہ آرائی سے بات کی تو جھوٹ کے مرتکب ہو کر سیاہ چہرے والے اور رحمت کے فرشتوں سے دوری کے مستحق ہوئے۔ قصہ مختصر کہ جتنا بولتے جائیں گے اتنا ہی گناہوں کی دلدل میں دھنستے چلے جائیں گے۔ جب کہ سکوت میں ان گنت فوائد ہیں۔

یادرکھیں! حقوق العباد کا معاملہ بڑا سخت ہے اللہ کریم چاہے تو روز محشر شرک کے سوا اپنے سارے حقوق بخش دے۔ لیکن وہ بندوں کے حقوق اس وقت تک نہیں بخشے گا جب تک بندہ اپنے حقوق دوسرے کو معاف نہ کردے۔ جھوٹ، غیبت اور چغلی وہ گناہ ہیں جن سے ہر حال میں بچنا ضروری ہے۔ ہماری اکثر خطاؤں اور گناہوں کا مرکز زبان ہوتی ہے لہذا پہلے تول کر پھر بولنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ہمارے دین نے ہمیں زبان کی حفاظت سے متعلق کتنا پیارا درس دیا کہ جب ہم صبح اٹھتے ہیں تو ہمارے جسم کے تمام اعضاء زبان کے سامنے عاجزانہ طور پر التجاء کرتے ہیں کہ ہمارے معاملے میں حق تعالی سے ڈرتے رہنا کہ ہم تجھ سے وابستہ ہیں۔ اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے، اگر تو ٹیڑھی ہوگی تو ہم بھی ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ چنانچہ بیان کیا جاتا ہے کہ قیامت کے دن بندے کو کسی چیز کا افسوس نہ ہوگا سوائے ان لمحات کا جو ذکر کے بغیر گزرے ہوں گے۔

جو شخص زبان سے ہر قسم کی اچھی اور بری بات کہنے کا عادی ہو تو اس کا دل سخت ہوجاتا ہے اور ایسے ہی بدزبان لوگوں کی وجہ سے آج معاشرہ ایک نہ ختم ہونے والی اخلاقی برائیوں اور پستیوں کا شکار ہے ۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-