معاشرتی ناانصافی اور عدم برداشت

روابط اور اتحاد سے ہی معاشرے میں خوشگوار زندگی کا وجود ممکن ہے۔ ان اصولوں میں سب سے اہم اصول مربوط اور منظم ہونا ہے اور منظم ہونے کے لیے سب سے اہم ضرورت ایک دوسرے کے نظریات و تصورات کو صبر و تحمل سے برداشت کرنا ہے۔ یہ صبر و تحمل ہی قوموں کو ترقی پسند اور اعلیٰ بناتی ہے۔ جس معاشرے میں صبر و تحمل اور برداشت کے رسم و رواج دم توڑنے لگے وہاں جھگڑے اور فتنے پھوٹنا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر یہ جھگڑے امن و امان کی خطرناک صورتحال اختیار کر لیتے ہیں جو ترقی کی راہ میں بہت بڑی مزاحمت اور دشواری کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔بدقسمتی سے دنیا میں بالعموم اور ہمارے ہاں بالخصوص عدم برداشت دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کی زبان سے کوئی اختلافی جملہ سننے تک کو تیار نہیں ہے۔ ہم گمراہی اور خود نمائی کی تمام حدوں کو پار کر چکے ہیں۔

کوئی انسان اگر ہم سے اختلاف کی جرات کر بیٹھتا ہے تو ہم اس کو درگزر کرنا تو دور، مرنے مارنے پر اتر آتے ہیں۔ ہمیں صرف اپنا قبلہ درست لگتا ہے، باقی ساری دنیا ہمارے نزدیک جاہل ہے۔ یہ عدم برداشت آج ہمیں اس نہج پہ لے آئی ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے اختلافات پر خون بہنے لگا ہے۔ صبر و تحمل اور برداشت کے نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ علم کی کمی اور دین سے دوری ہے۔ معاشرہ کی اکثریت خصوصاً نوجوان نسل دینی تعلیمات سے محروم ہے، اس لیے ان میں خود نمائی ، حسد، جلد بازی، فضول خرچی اوردوسروں کو حقیر سمجھنے سمیت لاتعداد روحانی امراض پیدا ہو رہے ہیں، جو عدم برداشت کی جڑ ہیں۔جبکہ دوسری طرف برداشت اور ایک دوسرے کے احترام کو فروغ دینے کے لیے صبرو شکر،حلم وبردباری، قناعت سے محروم رہتے ہیں۔ ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے مختلف خوبیاں سے نواز رکھا ہے،کسی کو زندگی کے ایک میدان میں مہارت حاصل ہوتی ہے ،تو کسی کو دوسرے میدان میں۔ لیکن ہمارے معاشرہ میں دوسروں سے مقابلہ کے لیے ماحول کچھ ایسے بنایا گیا ہے کہ ہر ایک دوسرے سے اس کی صلاحیتیں جانے بنا اعلیٰ کارکردگی کا خواہاں ہوتا ہے،مثلاً بچوں سے ان کی دلچسپی جانے بنا،ہر مضمون میں اچھے گریڈز کا مطالبہ کیا جاتا ہےاور دوسرےبچوں کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ جس سے انسان غیر ضروری دماغی دباؤ کا شکا ر ہوجاتا ہے اور اس کا نتیجہ عموماً عدم برداشت کی خطرناک بیماری کی صورت میں نکلتا ہے۔
دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی ہوئی مہنگائی اور غربت بھی عدم برداشت کا ایک سبب ہے،جب کوئی باپ باوجود بارہ گھنٹے مزدوری کرنے کے، اپنے بچوں کو اچھے ادارے میں تعلیم تو کیا دو وقت کی روٹی بھی نہیں دے پاتا یا کوئی بیٹا بستر پر پڑے اپنے بیمار والدین کے علاج کی طاقت نہیں پاتا،تو آہستہ آہستہ اس کی برداشت ختم ہو جاتی ہے۔

اسی طرح مہنگائی کے اس دور میں شادی وغمی کے موقع پر بےجا رسوم ورواج بھی انسان کے برداشت کو ختم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ ایک ہی ملک میں یکساں ٹیکس دینے والےلوگوں میں جب کچھ لوگ سہولیات سے بھرپور زندگی گزارتے ہوں اور کچھ کو زندگی کی بنیادی ضروریات میسر نہیں ہوں، ایک طبقہ کے لیے قانون موم کی ناک اور دوسرے طبقہ کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن جاتا ہو،ایک گھنٹوں دفاتر کے باہرقطار میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرتا ہو اور دوسرا گاڑی سے اتر کر سیدھا دفتر کے اندر پہنچ کر منٹوں میں فارغ جاتا ہو، تو انسان کے اندر عدم برداشت، بے چینی اور نفرت پیدا ہوتی ہے اور روز مرہ کی بنیاد پر ایسے واقعات اس کی برداشت ختم کر دیتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے سے بہتر اور دنیا کے مقابلے میں اپنے سے کمتر لوگوں کو دیکھو ،تاکہ اپنے پاس موجود نعمتوں کی قدر معلوم ہو اور اس پر اللہ کا شکر ادا کیا جائے۔لیکن یہاں سب کچھ اُلٹا چلتا ہے ،ہر کوئی اپنی موجودہ حالت سے غیر مطمئن اور دوسروں کی نعمتوں کا آرزو مند ہوتا ہے اور جب ہر طرح کےجائز و ناجائز وسائل بروئے کار لا کر بھی دوسرے کی طرح نہیں بن پاتا ،تو پھر مختلف نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو کر عدم برداشت کا شکار ہو جاتا ہے۔ ہمارے ہاں نفسیاتی مسائل سنگین صورت اختیار کر چکے ہیں جن کو سرے سے بیماری سمجھا ہی نہیں جاتا۔پوری دنیا میں نفسیاتی امراض کے شکار لوگ ماہرین نفسیات سے رجوع کرتے ہیں ،لیکن ہمارے ہاں ماہرین نفسیات سے علاج کرانا ایک قسم کا عیب سمجھا جاتا ہے اور ایسے مریض کو گویا پاگل تصور کر لیا جاتا ہے۔نتیجہ یہ ہوتا ہےکہ نفسیاتی امراض کا بروقت علاج نہیں کیا جاتا ، ۔لہٰذا یہی امراض انسان کی برداشت چھین لیتے ہیں اور ہر چھوٹی بڑی بات پر حد سے زیادہ رد عمل دیتے ہیں۔

ایک بات قابل غور ہے کہ معاشرے میں صبر و تحمل کے ناپید ہونے اور عدم برداشت کے اثرات صرف فرد واحد تک محدود نہیں رہتے ،بلکہ پورے معاشرے پر اس کا اثر پڑتا ہے۔ میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات ازدواجی زندگی کی مضبوطی کے لیے بہت ضروری ہیں ۔ اس رشتے کے استحکام کے لیے برداشت آکسیجن کا کام کرتی ہے،کیونکہ جب کسی ایک فریق کی طرف سے عدم برداشت کا مظاہرہ کیاجاتا ہے، تو اس رشتہ کو برقرار رکھنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ہمارےمعاشرے میں عدم برداشت کی وبا مکمل طور پر پھیل چکی ہے،لہٰذا خاندانی زندگی پر اس کے بُرے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ مختلف سرکاری و غیر سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں طلاق کی شرح 40 فیصد تک پہنچ گئی ہے،حالانکہ 70 کی دہائی میں یہی شرح 13 فیصد تھی، جبکہ پچھلے سال صرف سندھ میں خلع کے مقدمات میں 700 فیصد سے زائد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ایک مشرقی اسلامی معاشرے میں خاندانی زندگی کے لیے یہ اعداد و شمار موت سے کم نہیں ۔ معاشرتی زندگی میں کسی بھی انسان کی حالت یکساں نہیں رہتی بلکہ اس پر مختلف نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ کبھی انسان راحت و آرام میں گھری زندگی گزارتا ہے ، تو کبھی اس کو سکون و اطمینان کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں آتا ۔ وقت کی ستمگاری میں مزید نقصان اور مسائل سے بچنے کے لیے انسان کے پاس واحد طریقہ صبر و استقامت کا ہوتا ہے، جس انسان کی قوت برداشت جتنی زیادہ ہوگی ،اتنی ہی آسانی سے وہ سخت حالات سے نکلے گا،لیکن اگر کوئی قوت برداشت سے محروم ہوتا ہے تو دوسروں کے ساتھ خود اپنے لیے بھی خطرہ بن جاتا ہے،جس کی بدترین شکل خود کشی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہر گھنٹہ میں خود کشی کا ایک واقعہ رونما ہوتا ہے، اس حساب سے سالانہ یہ تعداد ہزاروں میں پہنچتی ہے۔ خود کشی کی تباہی صرف ایک فرد تک محدود نہیں رہتی بلکہ یہ پورے خاندان کو تباہ کرتی ہے،لہٰذا دیکھا جائے تو عدم برداشت سالانہ ہزاروں خاندانوں کا چین و سکون چھین لیتا ہے۔ معاشرہ مختلف خیالات و نظریات کے مجموعےکا نام ہے۔ لہٰذا کسی بھی معاشرہ کے امن وسکون کے لیے احترام ، باہمی رفاقت نہایت ضروری ہوتی ہے۔لیکن اگر کسی معاشرے میں دوسرے فرد کے نظریہ اور اختلاف رائے کو برداشت نہیں کیا جاتا ،تو اس کے خوفناک نتائج برآمد ہوتے ہیں ۔ ایسے معاشرہ میں امن و مان کی صورتحال کشیدہ رہتی ہے اور ہر وقت جھگڑے، قتل و فساد کا ماحول ہوتا ہے۔پاکستان ادارہِ شماریات کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال قتل و اقدام قتل کے اوسطاً 20 ہزار واقعات رونما ہوتے ہیں۔ ان اعداد و شمار سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ عدم برداشت نے ہمارے معاشرے کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔

معاشرے میں باہمی رواداری اور منظم ہونے کے لیے ریاست کی ذمہ داری ہے کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں تعلیمی نصاب سرکاری طور پر دیا جانا چاہیے اور ان اداروں کی رجسٹریشن ہونی چاہیے اور بچوں کی بھی رجسٹریشن ہونی چاہیے۔ بچوں کو درس نظامی کے ساتھ ساتھ دنیاوی اور سائنسی علوم سے بھی روشناس کروایا جانا چاہیے تاکہ وہ صحت مند دماغ لے کر معاشرے میں آئیں۔ مدارس کے علماء کی سرکاری طور پر ٹریننگ کا بندوست کیا جانا چاہیے تاکہ وہ بچوں کو اس کے مطابق پڑھائیں۔ ریاستی اداروں اور قانون کی رٹ قائم ہونی چاہیے۔ کوئی بھی عدم برداشت والا عمل ہونے سے پہلے قانون اور ادارے حرکت میں آئیں اور اپنا فعال کردار ادا کریں جس سے معاشرے میں عدم برداشت کو روکا جا سکے گا۔ امیر مزید امیر اور غریب بہت غریب ہوتا جا رہا ہے۔ سوشلزم اور مارکسزم کی صورت میں اس کا حل ہمارے سامنے رہا لیکن اس کا اطلاق ختم ہو چکا ہے۔ گو کہ یہ ایک ایسا انقلابی نظریہ ہے جسے حاصل کرنا ایک خواب ہے۔ لیکن ریاست اتنی کوشش تو کر سکتی ہے کہ کسی حد تک مساوات کی بنیاد پر لوگوں کو حقوق مہیا کر سکے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-