پاپولر سیاست کا اختتام

عمران خان کی حکومت کے دوران شہباز شریف و دیگر پی ڈی ایم رہنمائوں نے مہنگائی مارچ نکالا تو لوگوں کے ذہن میں آنے لگا کہ عمران خان نے مہنگائی کی اور پی ڈی ایم ہمارے لیے درد دل رکھتی ہے اس لیے کئی لوگ پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے ہوگئے مگر حکومت میں آتے ہی پی ڈی ایم کو جیسے مہنگائی نظر ہی نہیں آرہی حکومتی ناقص پالیسیوں کے باعث ملک میں سیاسی ماحول میں کشیدگی تو آئی ہے اس کے ساتھ معیشت کوبھی شدید دھچکا لگا ہے ہمارے کاروباری طبقے نے موجودہ ملکی معاشی صورتحال کو تجارت اور سرمایہ کاری کیلئے خطرناک قرار دے دیا ہے موجودہ ملکی معاشی حالات میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے عام عوام کے ساتھ ساتھ تاجر برادری بھی سخت پریشان ہے نامساعد حالات کی وجہ سے روزمرہ اخراجات پورے کرنا مشکل ہو چکے عام و خاص پریشان ہے۔ اس مہنگائی کی وجہ سے پاکستان کی تقریبا 80فیصد آبادی ذہنی ونفسیاتی امراض میں مبتلا ہو چکی ہے جس کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے آٹا،چینی، گھی، پٹرول، ادویات نے انتہائی بڑھتے ہوئے ریٹس سے عوام کیلئے دو وقت کی روٹی مشکل ہوکررہ گئی ہے

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بیروزگاری کی وجہ سے جرائم میں روز بروز اضافہ ہو رہاہے ملک میں مہنگائی کا طوفان برپا ہے سیاسی حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں اور ملک میں شدید مہنگائی کا طوفان ہے عوام دونوں طرف سے پس رہی ہے حکومتی اداروں کی طرف سے سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ کا نہ رکنے والا سلسلہ بھی جاری ہے جس میں اچھی خاصی خاطر تواضع کے بعد صرف کارکن ہی نہیں بلکہ بڑے بڑے لیڈران بھی نہ صرف اپنا بیانیہ بدل رہے ہیں بلکہ پارٹی اور اپنے اس لیڈر کو چھوڑتے جارہے ہیں جسے کچھ دن پہلے باپ سے بڑھ کر جانتے تھے اور ایسے ایسے قصیدے کہا کرتے تھے کہ لگتا تھا یہ اپنے پیدا کرنے والوں کو چھوڑ سکتے ہیں خان کو نہیں۔اگر پالر سیاست کی بات کریں تو 2013سے عمران خان کی سیاست پاپولر ہے پاپولیرٹی کو کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک عرصہ سے پاکستان میں دانش مندانہ سیاست نظر نہیں آتی جس کی وجہ پاپولر سیاست ہے۔سوشل میڈیا نے لوگوں کے دل و دماغ کومائوف کردیا ہے۔ وہ ٹیکنالوجی کے سحر میں مبتلا ہیں۔ اگر کہوں کہ پاکستان تحریک انصاف میں کبھی بھی دانش مندانہ سوچ والے لوگ تھے ہی نہیں۔ اس میں سارے دیوانے تھے جنہیں زیادہ تر کرکٹ اور کئی عمران خان جیسی شخصیت کے اسیر تھے۔ بعد میں سیاسی مفاد پرستوں کی وجہ سے خان اقتدار میں آگئے۔کوئی مانے نہ مانے انصافین کے نوجوان اینکرز، یوٹیوبرز، بلاگرزکودلیل کی بجائے جذبات بھڑکانے پر لگا دیا گیا۔ ”نیا پاکستان“ ،” دو نہیں ایک پاکستان“، ”تبدیلی “جنوبی پنجاب صوبہ” ہاؤسنگ سکیم” اور”مدینہ کی اسلامی ریاست “بنانے کے وعدے پر وفاق کے ساتھ دو صوبوں کی حکومت دے دی۔ لیکن جب سنگین معاشی اور داخلی بحرانوں میں حالات نے پلٹا کھایا اور سلیکٹرزاور کپتان کی راہیں الگ ہوئیں تو سارے بیاینے الٹ گئے۔پی ڈی ایم کے حکومت کے آنے کے بعد ان کے پاس تو کوئی بیانیہ تھا نہیں جس سے واضع لگ رہا تھا کہ خان اب دوبارہ اکثریت سے اقتدار میں آئے گا مگر9 مئی 2023ءکا سانحہ ظہور پذیر ہوا جس نے پورے ملک کا سیاسی منظر نامہ تبدیل کر دیا جس سے پاپولر سیاست اپنی موت آپ مر گئی اور پی ڈی ایم کو نہ صرف بیانیہ ملا بلکہ تحریک انصاف کو کچلنے کا بہانہ بھی ہتھے چڑھ گیا۔

یہاں پر مجھے امریکی ڈیوڈ گراہم کی بات یاد آتی ہے جو کہتے ہیں کہ”یہ سمارٹ سیاستدانوں کا دور ہے جو احمق ہونے کا بہانہ کرتے ہیں“۔سمارٹ سیاستدان کی ادائیں ووٹرں کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی ہیں مگرحکمت اور دانش کی کمی اسے تباہ کر دیتی ہیں دانشمند لوگ پاپولر سیاست اورپاپولر لیڈر کی احمقانہ حرکتوں سے قوم کو بچاتے ہیں۔سو ہمیں پاپولر سیاست کے اِس انجام سے سبق سیکھنا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں،عدلیہ پاکستان کو اسلامی جمہوری اور خوشحال ریاست کے لئے علم،حکمت اوردانش کے ساتھ آگے بڑھانا چاہیے اور اس کا آغاز صرف اور صرف منصفانہ، آزادانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا جلد از جلد انعقادہے۔ آخر میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گی کہ ہمارے سیاستدان جس طرح کی زبان ٹی وی پر استعمال کرتے ہیں کیا وہ پڑھے لکھے لوگوں کی ہے ؟ سیاست دانو! آپ کے ذمے چاک گریبان کی رفوگری اور عوامی خدمت تھی، آپ نے معاشرے میں سچ کو فروغ دینا تھا اور اس کے لئے جدوجہد کرنی تھی، مگر آپ نے تو معاشرے میں نفرت پھیلانے، جھوٹ کو فرغ دینے اور سچ کا گلا دبانے کی راہ اختیار کر لی ہے۔ ہم سے مصلحت اور خود غرضی کے غبار میں لپٹا یہ منظر دیکھا نہیں جاتا، ہم اس منظر کو بدلنا چاہتی ہیں،سچ اور محبت کو عام کرنا چاہتی ہیں، مگر فی الوقت ایسا لگتا ہے کہ یہ ہمارے حق میں نہیں۔

حکمران عمران خان سے مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ان سےاتنا پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا آپ ملک کو جنگ کی طرف لے جانا چاہتے ہیں؟ کیا مزاکرات کے بغیر کوئی مسئلے کا حل ہے؟ کیا آپ کی ہٹ دھرمی سے ملک کا نقصان نہیں ہوگا؟ کیا مزاکرات اور الیکشن کے بغیر ملک میں سیاسی رسہ کشی ختم ہو جائے گی؟ کیا اس سیاسی کشیدگی کی وجہ سے لوگ پرسکون ماحول محسوس کر سکیں گے؟ کیا سیاسی خانی جنگی کی وجہ سے لوگوں کے چہرے پر مسکان نظر آسکتی ہے؟

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-