“لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر وہ اس وقت پی ٹی آئی کے حق میں بولے، تو ان کے گھروں کی خواتین کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے”

“لوگوں کے خیال میں پی ٹی آئی کے خلاف موجودہ حکومت کے اقدامات پیپلز پارٹی کے خلاف جنرل ضیا کے دور کے اقدامات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں”، جرمن خبر رساں ادارے کی رپورٹ

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) جرمن خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق “لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر وہ اس وقت پی ٹی آئی کے حق میں بولے، تو ان کے گھروں کی خواتین کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے، لوگوں کے خیال میں پی ٹی آئی کے خلاف موجودہ حکومت کے اقدامات پیپلز پارٹی کے خلاف جنرل ضیا کے دور کے اقدامات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں”۔ تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاون کے حوالے سے جرمن خبر رساں ادارے ڈی ڈبلیو کی جانب سے ایک رپورٹ شائع کی گئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس کے 10 ہزار سے زائد کارکنوں کو پابند سلاسل کیا جا چکا ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اس صورت حال میں ایک عام پاکستانی کو جس پریشانی اور خوف کا سامنا ہے، ان میں ایک طرف سیاسی بے یقینی کی فضا ہے اور دوسری طرف جبر کا ماحول۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پاکستان میں سیاسی اپوزیشن کے خلاف ریاستی طاقت استعمال کی جا رہی ہے۔

حکومت کی طرف سے ریاستی طاقت کے ایسے استعمال پر پہلے سے پریشان حال عوام مزید تشویش کا شکار ہو چکے ہیں اور عام شہری خود سے پوچھنے لگے ہیں کہ آیا ان کی حالت زار کے بارے میں بھی کوئی سوچ رہا ہے؟ پاکستان میں مہنگائی، بے روزگاری، غربت اور معاشی مسائل اپنے عروج پر ہیں لیکن سیاست دان اور ٹریڈ یونینیں خوف کی موجودہ فضا کے باعث کسی بھی طرح کے احتجاج پر آمادہ نہیں۔
ایسے میں عام لوگوں کا سوال یہ ہے کہ ان کے مسائل کون حل کرے گا؟ سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نے جمعرات 25 مئی کے روز اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان تحریک انصاف کے خلاف کریک ڈاؤن جاری ہے، جس سے صرف پی ٹی آئی کو ہی نہیں بلکہ جمہوریت کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ پارٹی کے 10 ہزار سے زیادہ کارکنوں اور حمایتیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور پوری پارٹی لیڈرشپ کو جیل بھیج دیا گیا ہے، جبکہ کچھ رہنماؤں پر تو دوران حراست تشدد بھی کیا جا رہا ہے۔
عمران خان کا دعویٰ ہے کہ ملک میں نو مئی کے واقعات کو بہانہ بنا کر پی ٹی آئی کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن حکومت کے تمام ہتھکنڈے ناکام رہیں گے کیونکہ ملک کے نوجوان تمام تر پابندیوں کے باوجود اور سوشل میڈیا کے ذریعے حقائق سے آگاہ ہیں اور وہ سیاسی طور پر باشعور ہیں۔ ڈی ڈبلیو کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں جب بھی سیاسی جماعتوں کے خلاف کریک ڈاؤن ہوتا ہے، تو ہمیشہ ایسے حلقے موجود ہوتے ہیں جو ایسے کریک ڈاؤن کی شدید مخالفت اور ریاستی جبر کی مذمت بھی کرتے ہیں۔
لیکن کئی مبصرین کے مطابق موجودہ حالات میں اس کریک ڈاؤن کے خلاف لوگ خوف کی وجہ سے خاموش ہیں۔ اس حوالے سے تجزیہ نگار احسن رضا کے مطابق صوبہ پنجاب میں لوگ ریاستی طاقت کے خلاف خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں اور ان کے خیال میں پی ٹی آئی کے خلاف موجودہ حکومت کے اقدامات پیپلز پارٹی کے خلاف جنرل ضیا کے دور کے اقدامات سے بہت مماثلت رکھتے ہیں۔
احسن رضا نے لاہور سے گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”خوف کا عنصر صرف میڈیا میں ہی نہیں بلکہ سول سوسائٹی، جو عموماﹰ ایسے کسی خوف کو خاطر میں نہیں لاتی، وہ بھی ڈری ہوئی نظر آ رہی ہے۔ اس لیے کہ عدالتوں کے احکامات پر بھی عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ سب جانتے ہیں کہ طاقت ور ریاستی ادارے اس وقت پی ٹی آئی کے خلاف ہیں۔ خواتین کی گرفتاریوں نے بھی خوف کے عنصر کو ہوا دی ہے اور لوگوں کو خدشہ ہے کہ اگر وہ اس وقت پی ٹی آئی کے حق میں بولے، تو ان کے گھروں کی خواتین کو بھی گرفتار کیا جا سکتا ہے‘‘۔