مضبوط عورت مضبوط خاندان

وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
عورت خاندان کی بنیادی اکائی ہے۔اور خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ہے۔ جب تک خاندان مستحکم نہیں ہو گا، معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور خاندانی استحکام عورتوں کے مرہون منت ہے۔ مستحکم خاندان کے لیے عورت کا مضبوط اورمستحکم ہونا اشد ضروری ہے۔ تو یہ طے ہے ،کہ معاشرے کی ترقی کے لیے عورت کو میدان عمل میں اترنا ہو گا، اپنی تہذیب و تمدن کے زیر سایہ سماجی تقاضوں کے مطابق خاندان کی تشکیل نو، کرنا ملکی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، جس پر عمل پیرا ہو کر عورت قدرت کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو با آسانی نبھا سکے۔ اس لائحہ عمل میں دو باتوں کا دھیان رکھنا انتہائی ضروری ہیں۔ ایک یہ ہمارے کلچر اور اقدار کے مطابق ڈیزائن کیا جائے۔ دوسرا یہ انسانی فطرت کے مطابق ہو۔اس ضمن میں چند اقدامات اٹھائے جائیں تو یقیناً معاشرہ اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہیں۔ عالمی استعماری ایجنڈے، کے تحت آزادی نسواں، کے نام پر معاشرے میں پھیلنے والی بے راہ روی اور آزادی نے ہمارے کلچر اور اقدار، کو پامال کرنے کے ساتھ ساتھ گھریلو ماحول بھی تباہ کر دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں طلاق کے مقدمات کی شرح ،باقی مقدمات سے زیادہ ہے۔ اور چائلڈ لیبر ،کی شرح بھی بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں طلاق ،کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے جہاں بہت سی عورتیں بے سہارا ہو رہی، وہاں اولاد ،کے سر سے باپ کا سائباں ،نہ ہونے کی وجہ سے بچے چھوٹی عمر میں تعلیم سے محروم ہو کر ،مختلف جگہوں پر مزدوری کر کے معاشرے کے بے رحم تھپڑ کھانے پر مجبور ہیں۔ تو دوسری جانب پاکستان جیسے ملک میں اولڈ ہوم، تعمیر ہو رہے جو ہماری بے حسی اور مغرب پرستی، کا منہ بولتا ثبوت ہے۔مغرب پرستی کا ہی اعجاز ہے۔کہ آج کی عورت چادر اور چار دیواری، کے تقدس کو پس پشت ڈال کر گھر گر ہستی سے نالاں، ہو کر محافل کی زینت بن رہی۔ گھریلو ذمہ داریاں اور بچوں کی تربیت جو اس کا اصل مقصد ہے ،اس کو حقیر سمجھ کر بے مقصد اور شتر بے مہار، زندگی کی طر ف راغب ہو رہی ہے۔
آج کی عورت کو سمجھنا چاہیے کہ آزادی نسواں ،کی آڑ میں ایک خوفناک کھیل ہو رہا ہے۔ اور اس کا اندازہ اس وقت ہوتا جب یہ عورت سے شرم، حیا اس کی ذات کا غرور، اس کی نسوانیت کا وقار، چھین لیتا ہے۔ زمیں زادگاں ،کی قسمت کا فیصلہ ہونے کے بعد جو تشخص اور تحفظ عورت کو دیا گیا ،آج وہ اسی تحفظ سے باہر نکل کر اپنا تشخص کھو رہی ہے۔اور اس کے نتیجے میں جہاں شرم ناک، قصے خبروں کی زینت بن کر گھروں میں صف ماتم بچھا رہے۔وہاں والدین کے نحیف کندھوں، کو جھکا کر تاریخ میں سیاہ باب رقم کر رہے ہیں۔ تو دوسری جانب ہمارے معاشرے کو مغربیت کے اندھے کنوئیں کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں ملک و قوم تنزلی کی طرف جا رہے ہیں۔ اگر ہم اب بھی بیدار نہ ہوئے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنا تشخص، کھو کر مغربیت میں ضم ہو جائیں گے۔ اور ہماری ترقی کا خواب خواب ہی رہے گا۔اس سلسلہ میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ اس کے لیے کچھ تجاویز ہیں۔ اگر ان کو قابل عمل بنایا جائے، تو ان شائ ا? نہ صرف عورت اور خاندان خوشحال ہوں گے بلکہ ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
یقیناً وہ عورت ہی معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے، جو خود مضبوط ہو ،اور عورت کے مضبوط ہونے کا دارومدار اس کے مضبوط کردار پر ہے۔ ایک با حیا با شعور ،عصمت مآب اچھی سیرت و کردار کی عورت ہی نہ صرف اچھا خاندان تشکیل دے سکتی ہے۔ بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی سنوار سکتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ عورت کو شعور دیا جائے،اس کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے۔ ورنہ صرف یہ تعلیم جو دور رواں، میں رائج ہے یہ عورت کو اس کی ذات کا شعور تو نہیں دے رہی، البتہ یہ طرز تعلیم بے راہ روی کے لیے راہ ضرور ہموار کر رہا ہے۔ اسی بات کو علامہ اقبال نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت
آئے روز تعلیمی اداروں سے پنپنے والے قابل مذمت واقعات بنت حوا کی آزاد خیالی کی وجہ سے ان کے ساتھ پیش آنے والے خوفناک حادثے اور اداروں میں، طالبات، میں نشے کی عادت کی بڑھتی ہوئی شرح عورت کے تجاہل ،کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔ اس سے پہلے کہ تحقیر کا یہ سلسلہ مزید بڑھیحکومتی سطح، پر اس ایجنڈے، پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ پردہ اور حیا کی اہمیتافادیت اور عورت کا شعور، اور خودی ،بیدار کرنے کے لیے ملک گیر مہم چلائی جائے۔ دور رواں، میں عورت جو بنیادی غلطیاں کر رہی ،ان کا احساس دلانے کے ساتھ طلاق کی ناپسندیدگی واضح کی جائے۔ خاندان مختصر کرنے پر آگاہی سٹال لگانے کی بجائے خاندان کی خوشحالی اور خوشگوار زندگی میں عورت کے کردار اور ذمہ داری، کی اہمیت کی آگاہی پر سٹال لگائیں جائیں۔ اسی طرح دور حاضر کے فتنوں سے روشناس کروایا جائے۔ آج کی عورت اپنی اقدار اور روایات سے نا آشنا ہے۔ گھر بنانے سے پہلے الگ گھر کی فرمائش کر رہی ، رشتوں کے تقدس کو پامال کر رہی ،بچوں سے ان کے خوبصورت رشتے چھین کر انہیں ٹیکنالوجی، کے رحم کرم پر چھوڑ رہی۔ ساس سسر،کو ایدھی سنٹر کے حوالے کرتے ہوئے، بھول رہی کہ کل اپنی بوئی ہوئی فصل کو کاٹنا بھی ہے۔ یاد ہے تو انڈین ڈراموں سے سیکھی ہوئی سازشیں، آج کی عورت کو اپنی اقدار باہمی احترام کا شعور دینا ہو گا اپنی اور دوسری تہذیبوں کا امتیاز سمجھانا ہو گا۔
قدرت نے عورت کو جس مقصد کے لیے تخلیق کیا ہے اس کی جسمانی ساخت کو اسی کے مطابق بنایا ہے اور اسی کے مطابق طاقت دی ہے۔ اس لیے وہ مردوں کی طرح کام نہیں کر سکتی، اگر وہ اپنی استطاعت سے بڑھ کر فطرت سے ٹکر لینے کی کوشش کریں گی، تو اپنے مقصد کے قابل رہے گی، نہ اپنی ذمہ داریوں کو بخوبی نبھا سکیں گی، اس لیے ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تکریم نسواں ،کا شعور بیدار کیا جائے اور مردوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے۔ تاکہ عورت معاشی ذمہ داریوں کے اضافی بوجھ سے بے فکر ہو کر نسلوں کی تربیت کر سکیں۔
نکاح اور خاندان سازی کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے۔ نکاح جیسا پاکیزہ تعلق ہی ہمارے معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کا سدباب کر سکتا ہے۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے، بچپن میں بچی کی تربیت پرابھی تو بچی ہے ،،کہہ کر توجہ نہیں دی جاتی، قطع نظر اس بات کے کہ درخت اگر ایک بار ٹیڑھے پن سے بڑا ہو جائے تو پھر کبھی سیدھا نہیں ہوتا۔یہی بہترین وقت ہوتا سادہ لوح،،پر جو بھی لکھا جاتاوہی نقش ہو جاتا ہے۔اگر چھوٹی بچی کو عزت و عصمت اور حیا کا درس نہیں دیا جاتا تو بعد میں بھی نہیں سیکھایا جا سکتا۔دوسری طرف یہی جملہ ابھی بچے ہیں،، کہہ کر بچیوں یا بچوں کا نکاح نہیں کیا جاتا، پھر ہوش تب آتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا۔کبھی یہ نکاح والدین اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر ،اپنے معیار کے چکر میں نہیں کرتے ،تو کبھی نہایت قبیح رسم جہیز ،کی عدم دستیابی، کی وجہ سے نہیں ہو پاتا، یہاں تک کہ بعض اوقات تو بیٹیوں کی شادی ،اس وجہ سے نہیں کی جاتی کہ یہ کما رہی ہیں۔ ان کی شادی کر نے کے بعد گھر کی کفالت کون کرے گا ،اور یہ وبا روز بروز پھیل رہی ہیں۔نتیجتاً عورت اپنے مدار سے ہٹ کر ان کاموں میں لگ گئی ہے، جن کے لیے وہ پیدا ہی نہیں ہوئی۔ اس سارے عمل میں عورت کہیں خود قصور وار ہے، تو کہیں بے قصور ہی معاشرے کی ناانصافیوں کی سزاوار ٹھہری ہے۔
اس لیے نوجوان نسل کی فکری اور عملی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک عورت اپنے اصل مقام پر نہیں آئے گی، معاشرے میں بڑھتے ہوئے مسائل میں کمی نہیں آئے گی۔ آج اگر ہمیں طارق بن زیاد، محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی، ارطغرل غازی نظر نہیں آتے تو اس کی وجہ یہی ہے، کہ ہماری نسلوں کی تربیت جن کے ہاتھوں میں ہے وہ فکری اور عملی محاذ، پر انتہائی پستی کا شکار ہو چکیں ہیں۔
امام حسین علیہ السلام کی سیرت و کردار کو داد دیتے ہووے دنیا کبھی نہیں بھولے گی، یہ عظیم سپوت سیدہ کائنات جیسی عظیم ماں، کا ہے جن کی حیا اور پردہ کا یہ حال ہے کہ سورج بھی ان کا احترام کرتا ہے۔حضرت عبدا? بن زبیر اپنی والدہ ماجدہ حضرت اسماءبنت ابو بکر رضی اللہ عنہ، کے پاس اس حال میں مشورہ کرنے گئے کہ حجاج بن یوسف، کے محاصرے نے سات ماہ تک طول کھینچ لیا تھا، آپ نے والدہ ماجدہ سے عرض کی، کہ اب بیٹے تک ساتھ چھوڑ چکے ہیں۔چند ساتھی باقی رہ گئے ہیں ان میں بھی لڑنے کی سکت نہیں رہی، ایسی حالت میں آپ کا کیا ارشاد ہے والدہ ماجدہ نے فرمایا جاو¿ اور راہ حق میں اپنے خون کا آخری قطرہ تک بہا دو،، آخر کار آپ کو شہید کر کے حجاج بن یوسف، نے آپ کی لاش، کو سولی پر لٹکا دیا۔تین روز کے بعد حضرت اسماءکا ادھر سے گزر ہوا، تو بیٹے کی مصلوب لاش کو دیکھ کر فرمایا یہ شہسوار ابھی اپنی سواری سے نہیں اترا،، اللہ اکبر بے شک ایسی مضبوط اور با کمال مائیں ہی با کمال نسلوں کی ضامن ہوتی ہیں۔ سیرت صحابیات آج کی عورت کے لیے بہترین مشعل راہ ہے۔ مغربی ثقافتی یلغار ،سے بچنے اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات ،پر عمل پیرا ہونے کے لیے ہمیں ہر محاذ پر لڑنا ہو گا،ترقی اور خوشحالی میں عورت کے کردا،اور ذمہ داری کو اجاگر کرنے کے لیے علماءاور مشائخ کو تعلیمی اداروں کے سربراہان با شعور خواتین و حضرات، اور میڈیا کو اپنے اپنے منصب کے مطابق نور آگاہی کو پھیلانا ہو گا۔حکومت وقت سے بھی التماس ہے نکاح اور خاندان سازی کے لیے آسان قوانین مقرر کرنے کے ساتھ حکومتی سطح پرپردہ ،، لازمی قرار دیکر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ریاست مدینہ کی پیروی کا عملی ثبوت دیں۔
تیرا ہر کمال ہی ظاہری تیراہرخیال ہے سرسری کوئی دل
کی بات کروں بھی توکیا تیریدل میں آگ توہے نہیں

اپنا تبصرہ بھیجیں