انتخابات التواء کیس: فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد، سماعت پیر تک ملتوی

اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

جسٹس جمال مندوخیل کی معذرت کے بعد بنچ ایک بار پھر ٹوٹ گیا ہے، گزشتہ روز بھی 5 رکنی بنچ میں شامل جسٹس امین الدین بنچ سے علیحدہ ہوگئے تھے جس کے بعد آج باقی ججز پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کرنا تھی۔

آج چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 4 رکنی بنچ سماعت کے لیےکمرہ عدالت پہنچا، بنچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال مندوخیل شامل تھے۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان روسٹرم پر آئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، آپ سے پہلے جسٹس جمال مندوخیل کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کیس سننے سے معذرت کرلی، ان کا کہنا تھا کہ جسٹس امین الدین نے کیس سننے سے معذرت کی، جسٹس امین الدین کے فیصلے کے بعد حکم نامےکا انتظار تھا، مجھے عدالتی حکم نامہ کل گھر میں موصول ہوا، حکم نامے پر میں نے الگ سے نوٹ تحریرکیا ہے، اٹارنی جنرل صاحب آپ اختلافی نوٹ پڑھ کر سنائیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ

اٹارنی جنرل نے گزشتہ روزکی سماعت کے حکم نامے میں جسٹس جمال مندوخیل کا اختلافی نوٹ پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ میں بنچ کا ممبر تھا، فیصلہ تحریرکرتے وقت مجھ سے مشاورت نہیں کی گئی، میں سمجھتا ہوں کہ میں بنچ میں مس فٹ ہوں، دعا ہے اس کیس میں جوبھی بنچ ہو ایسا فیصلہ آئے جو سب کو قبول ہو، اللہ ہمارے ادارے پر رحم کرے، میں اور میرے تمام ساتھی ججز آئین کے پابند ہیں, حکم نامہ کھلی عدالت میں نہیں لکھوایا گیا، جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے کا کھلی عدالت میں جائزہ لیا جائے۔

اس دوران چیف جسٹس پاکستان نے جسٹس جمال مندوخیل کو بات کرنے سے روک دیا اور ان سے کہا کہ بہت بہت شکریہ، بنچ کی تشکیل کا جوبھی فیصلہ ہوگا کچھ دیربعد عدالت میں بتادیا جائےگا۔

جسٹس جمال خان مندو خیل کا کہنا تھا کہ میں کل بھی کچھ کہنا چاہ رہا تھا، شاید فیصلہ لکھواتے وقت مجھ سے مشورے کی ضرورت نہیں تھی، شاید فیصلہ لکھواتے وقت مجھے مشورے کے قابل نہیں سمجھا گیا، اللہ ہمارے ملک کے لیے خیر کرے۔

کیس کی سماعت کے لیے نیا بنچ تشکیل

چیف جسٹس پاکستان نے کیس کی سماعت کے لیے نیا بنچ تشکیل دے دیا، سپلیمنٹری کاز لسٹ کے مطابق چیف جسٹس پاکستان، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بنچ میں شامل ہیں۔

پاکستان بار کی فل کورٹ بنانے کی استدعا

چیف جسٹس کی سربراہی میں کیس کی سماعت شروع ہوئی تو پاکستان بارکونسل کے چیئرمین ایگزیکٹوکونسل حسن رضا پاشا روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس نے ان سےکہا کہ آپ کو بعد میں سنیں گے۔

حسن رضا پاشا کا کہنا تھا کہ بار کا کسی کی حمایت یا مخالفت سےکوئی تعلق نہیں، اگر فل کورٹ بنچ نہیں بن سکتا تو فل کورٹ اجلاس کرلیں۔

چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال کا کہنا تھا کہ اس پر ہم سوچ رہے ہیں، جہاں تک ججز کے تعلقات کی بات ہے تو ججزکے آپس میں تعلقات اچھے ہیں، کل اور آج 2 ججوں نے سماعت سے معذرت کی، ججزکی باہمی اعتراف اورشائستہ گفتگو پہلے بھی ہوئی اوربعد میں بھی،کچھ نکات پر آپس میں گفتگو ناگزیر ہے،کچھ سیاسی معاملات سامنے آئے جس پر میڈیا اور پریس کانفرنسز سے تڑکا ڈالا گیا، عدالت نے سارے معاملے پر تحمل کا مظاہرہ کیا،کچھ لوگ چند ججزپر تنقید کر رہے ہیں اور کچھ دوسرے ججز پر، ہم اس معاملےکو بھی دیکھیں گے۔

چیف جسٹس نے حسن رضا پاشا سےکہا کہ آج پہلی بار آپ عدالت آئے ہیں، گزارشات سے نہیں عمل سے خود کو ثابت کریں، چیمبرمیں آکر مجھ سے ملیں، آپ کا بہت احترام ہے، سپریم کورٹ بار کے صدر مجھ سے رابطے میں رہے ہیں، معاملہ صرف بیرونی امیج کا ہوتا تو ہماری زندگی پرسکون ہوتی، میڈیا والے بھی بعض اوقات کچھ بھی کہہ دیتے ہیں، اکثرجھوٹ بھی ہوتا ہے، عدالت ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کرتی ہے، سماعت کے بعد کچھ ملاقاتیں کروں گا، توقع ہے کہ پیرکا سورج اچھی نوید لےکر طلوع ہوگا۔

اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان روسٹرم پرآئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب جو نکات اٹھانا چاہیں اٹھاسکتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت نے کچھ مقدمات میں حالات کی پیروی کے لیے فریقین کو ہدایت کی تھی، عدالت سے گزارش ہےکہ پہلے سیاسی درجہ حرارت کم ہونے دیں، ملک میں ہرطرف درجہ حرارت کم کرنےکی ضرورت ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ درجہ حرارت کم کرنے کے لیے آپ کو ہدایات لینےکا کہا، اس پرآپ نےکیا کیا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف وقت درکار ہے، وقت کے ساتھ ہی درجہ حرارت کم ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس عدالت نے ہمیشہ آئین کو ہی فوقیت دی ہے، ججز کو دفاتر سے نکال کر گھروں میں قید کیا گیا تھا، میری زندگی کا معجزہ تھا کہ جب ججزبحال ہو کر واپس دفاتر میں آئے، 90 کی دہائی میں کئی بہترین ججز واپس نہیں آسکے، اس واقعے نے میرا زندگی کا نظریہ ہی بدل دیا، آئین ہی جمہوریت کو زندہ رکھتا ہے، کل تک جو جیلوں میں تھے آج اسمبلی میں تقاریرکر رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہےکہ وہ عوام کے نمائندے ہیں، اسمبلی کی 5 سال کی مدت ہوتی ہے لیکن ہاؤس کے سربراہ کو تحلیل کا اختیار ہے، اسمبلیاں تحلیل ہونے سے لے کر اب 90 دن کا وقت اپریل میں ختم ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ صدر نے 90 دن کی مدت کے 15 دن بعد تاریخ دی، صدرکو الیکشن کمیشن نے حالات نہیں بتائے تھے، صدر کو حالات سے آگاہ کیا ہوتا تو شاید 30 اپریل تاریخ نہ آتی، عدالت کے سامنے مسئلہ 8 اکتوبرکی تاریخ کا ہے، عدالت مشکلات پیدا کرنے نہیں بیٹھی، عدالت کو ٹھوس وجہ بتائیں، یہ ڈائیلاگ شروع کریں، ایک فریق پارٹی چیئرمین کی گارنٹی دے رہا ہے، شاید حکومت کو بھی ماضی بھلانا پڑےگا، اسمبلیوں کی مدت ویسے بھی اگست میں مکمل ہو رہی ہے، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مذاکرات ہوں تو کچھ دن وقفہ کرلیں گے، اگر مذاکرات نہیں ہونے تو آئینی کردار ادا کریں گے، عدالتی فیصلہ دیکھ کرآپ کہیں گے کہ بااختیارفیصلہ ہے، ہرفریق کے ہر نکتےکا فیصلے میں ذکرکریں گے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ 20 ارب کے اخراجات پر پہلے عدالت کو بتائیں، ہم نے اخراجات کم کرنے کی تجویز دی تھی۔

اٹارنی جنرل نے 27 فروری کا عدالتی حکم پڑھ کر سنایا، چیف جسٹس نے کہا کہ معاملہ چیف جسٹس کو بنچ کی ازسرنو تشکیل کے لیے بھیجا گیا تھا، چاہتا تو تمام ججز کو بھی تبدیل کرسکتا تھا، اگر آپ وہی کرنا چاہتے ہیں جس سے مسئلہ بنا تویہ ہماری پرائیوسی میں مداخلت ہوگی۔

اٹارنی جنرل نےکہا کہ آپ نےکہا کہ ججز نے سماعت سے معذرت نہیں کی تھی، چیف جسٹس نےکہا کہ میں نے ججز کی سماعت سے معذرت پر کچھ نہیں کہا، سماعت روکنے والا حکم ہم ججز آپس میں زیربحث لائیں گے، آپ درجہ حرارت کم کرنے والی بات کر رہے تھے، ججز تو تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے، ججز کی اندرونی گفتگو عوام میں نہیں کرنی چاہیے، درجہ حرارت کم کرنے والے آپشن پر ہی رہیں، جلد ہی ان معاملات کو سلجھادیں گے۔

اٹارنی جنرل کی جانب سے ایک بار پھر فل کورٹ بنانے کی استدعا پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ فل کورٹ پر دلائل دینا چاہتے ہیں تو دیں، فل کورٹ کا معاملہ میرے ذہن میں تھا، فل کورٹ کی تشکیل سے قبل کچھ عوامل کو دیکھنا ضروری ہوتا ہے، دوران سماعت چیف جسٹس عمرعطا بندیال جذباتی ہوگئے اور ریمارکس دیتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان کی آواز بھرا گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک عمل یہ ہوتا ہے کہ معمول کے مقدمات متاثرنہ ہوں، موجودہ دور میں روز نمٹائے گئے مقدمات کی تعداد بڑھتی جارہی ہے، بعض اوقات تمام ججز پرنسپل سیٹ پر دستیاب نہیں ہوتے، گزشتہ ہفتے کوئٹہ، کراچی اور لاہور میں بھی بینچز تھے، اس ہفتے بھی لاہور میں بینچ تھا، 9 رکنی بنچ تشکیل دیتے وقت میں نے تمام ججز کے بارے میں سوچا تھا، 9 رکنی بنچ بناتے وقت سوچا تھا کہ سینئر سے نئے تک تمام ججز کی نمائندگی ہو، میں نے جسٹس اطہرمن اللہ کو آئین سے ہم آہنگ پایا، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحیٰی آفریدی، جسٹس منیب اختر آئین کے ماہر ہیں،جسٹس اعجاز الاحسن بھی آئین کے ماہر ہیں، آپ پوچھ سکتے ہیں جسٹس مظاہر نقوی کیوں شامل کیے گئے، جسٹس مظاہر نقوی کو شامل کرنا خاموش پیغام دینا تھا، 2019 سے 2021 تک جسٹس فائز عیسیٰ فل کورٹ کیس چلا اور عدالت کو سزا ملی۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملہ چل رہا ہے جس بنیاد پر دیگر ججز کو نشانہ بنایا گیا، سپریم کورٹ کے ججز کو سنی سنائی باتوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، سپریم کورٹ متحد تھی اور کچھ معاملات میں اب بھی ہے، عدلیہ کس طرح متاثر ہو رہی ہے کوئی نہیں دیکھتا، اہم عہدوں پر تعینات لوگ کس طرح عدلیہ کو نشانہ بنا رہے ہیں، مجھے کہا جا رہا ہے کہ ایک اور جج کو سزادوں،جا کر پہلے ان شواہد کا جائزہ لیں۔

بعدازاں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی جانب سے فل کورٹ بنانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کیس کی سماعت پیر ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ سماعت کااحوال

یاد رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ بنچ کے رکن جسٹس امین الدین کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

جسٹس امین الدین نے اپنے ریمارکس میں کیس کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کے تناظر میں کیس سننے سے معذرت کرتا ہوں۔

جسٹس امین الدین کے بات کرنے کے بعد بنچ کورٹ روم سے چلا گیا۔

جسٹس امین کی معذرت کے بعد عدالت کا پانچ رکنی بنچ غیر فعال ہوگیا اور گزشتہ روز کیس کی سماعت نہ ہوسکی۔

قبل ازیں سماعت میں پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر، الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں۔

وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا تھا کہ آرٹیکل 224 کے تحت الیکشن 90 روز میں ہونا ہیں، انتخابات کیلئے آئین میں سازگار ماحول بھی ہونا ضروری ہے۔

وکیل نے مزید بتایا انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر کے سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد کیا، سکیورٹی اور فنڈز کی صورتحال کے باعث الیکشن کی نئی تاریخ 8 اکتوبر دی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن راستہ نہیں ڈھونڈ سکتا تو ہم ڈھونڈ لیں گے، جسٹس جمال مندوخیل نے گزشتہ روز سماعت کے دوران اپنے ریمارکس پر وضاحت کر دی۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اپنے تین چار کے فیصلے پر قائم ہوں، سپریم کورٹ کے اندرونی معاملے پر ریمارکس کورٹ رولز سے متعلق تھے، چار ججز نے پی ٹی آئی کی درخواستیں خارج کیں۔

سپریم کورٹ نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کیلئے کل پی ٹی آئی سے تحریری یقین دہانی طلب کی تھی، عدالت نے وزارت داخلہ اور وزارت دفاع سے حالات بہتر ہونے کے وقت پر بھی جواب مانگ لیا ہے۔