الیکشن کیلئے پورا بجٹ ضروری نہیں، کٹ ہماری تنخواہوں پر بھی لگایا جا سکتاہے: بندیال

20 ارب چاہئیے، یہ رقم الیکشن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی بڑی رقم نہیں،تنخواہوں پر کٹ لگائیں لیکن اس بڑے مسئلے کو حل ہونا چاہئیے۔چیف جسٹس کے اہم ریمارکس

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ) سپریم کورٹ میں الیکشن ملتوی کرنے کے خلاف سماعت شروع ہو گئی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ سماعت کررہا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن ،جسٹس منیب اختر ،جسٹس امین الدین خان ،جسٹس جمال خان مندوخیل بھی بنچ میں شامل ہیں۔دورانِ سماعت چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل کو خوش آمدید کہتے ہیں، پہلے اٹارنی جنرل کو سنیں گے۔
انہوں نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ اچھی نیت کے ساتھ کیس سن رہی ہے ۔ اس کیس کو لٹکانا نہیں چاہتے۔ سیاسی جماعتوں کو فریق بنانے کے لیے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا تھا۔سیاسی جماعتوں کے فریق بننے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے آج کل سیاسی پارہ بہت اوپر ہے۔سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کر سکتا ہے یا نہیں،اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی،دو ججز کے اختلافی نوٹ کو دیکھا جن کا اپنا نقطہء نظر ہے،دو ججز کے اختلافی نوٹ کا موجودہ کیس سے براہ راست تعلق نہیں۔
چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دئیے کہ جمہوریت کے لیے قانون کی حکمرانی لازم ہے،قانون کی حکمرانی کے بغیر جمہوریت نہیں چل سکتی،سیاسی درجہ حرارت اتنا زیادہ ہو گا تو مسائل بڑھیں گے۔ اٹارنی جنرل نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کر دی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے دو ججز نے پہلے فیصلہ دیا۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ اس وقت سوال فیصلے کا نہیں الیکشن کمیشن کے اختیار کا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فیصلہ 3/4 ہوا تو حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی۔عدالتی حکم نہیں تھا تو صدرِ مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے۔یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔اٹارنی جنرل نے درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی اعتراض اٹھایا۔دورانِ سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ کیا الیکشن کمیشن خود ہی فیصلہ کر سکتا ہے انتخابات 6 ماہ 6 سال یا 60 سال ملتوی کرنے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ اگر حکومت اورالیکشن کمیشن انتخابات سے انکار کر دیں تو کیا ہم زبردستی کر سکتے ہیں،میں نے پورے آئین کا جائزہ لیا اس سوال کا جواب نہیں ملا۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ اگر یہ سارا اختیار پارلیمنٹ کو دے دیا جائے تو معاملہ لٹک جائے گا۔یہ کیسے ہوسکتا ہے انتخابات کی تیاری ہو اور وزیرخزانہ کہ دے پیسے نہیں ہیں۔
دوران سماعت وکیل علی ظفر نے یہ بھی کہا کہ کیا الیکشن کمیشن نے پیسوں کیلئے وفاق کو لکھا، کیا الیکشن کمیشن نے انتخابات کیلئے سیکیورٹی مانگی، الیکشن کمیشن نے محظ ملاقاتیں کر کے الیکشن کی تاریخ تبدیل کردی،ریاست کے ساتھ وفاداری آئینی ذمہ داری ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے کہ وہ وجوہات بتائی جائیں جن پر انتخابات ملتوی ہوئے۔
جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟ وکیل علی ظفر نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ نے کہا فنڈز کی قلت ہے ، الیکشن کے لیے رقم نہیں دے سکتے جس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دئیے کہ اس کا مطلب ہے کہ وفاقی حکومت چاہے تو انتخابات نہیں ہو سکتے۔وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ پارلیمنٹ کی منظوری کے بغیر فنڈز جاری نہیں ہو سکتے۔ جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ اگر اسمبلی تحلیل ہو جائے تو کیا پھر انتخابات کے لیے رقم جاری نہیں ہو سکتی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیکرٹری خزانہ کہہ رہے تھے ہم دو بار رقم نہیں دے سکتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے 20 ارب چاہئیے، یہ رقم الیکشن کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے کوئی بڑی رقم نہیں۔تنخواہوں پر کٹ لگائیں لیکن اس بڑے مسئلے کو حل ہونا چاہئیے۔ چیف جسٹس نے انتحابات کیلئے تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ ملک معاشی بحران سے گزر رہا ہے،اسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔بحران سے نمٹنے کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے۔پانچ فیصد تنخواہ کٹنے سے الیکشن کا خرچہ نکل سکتا ہے۔