یہ میرا پیارا دیس ہے…..!

جہاں ہر گلی، ہر محلے میں عالیشان دینی مدارس و مساجد موجود ہیں، لیکن یہاں پڑوسی کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں ہے۔ یہاں ہر گاؤں میں لازمی ایک بہت بڑا نامی گرامی فلاحی ادارہ موجود ہے جو کروڑوں روپے کے ہر ماہ نمائش کے طور پر فلاحی کام دکھا کر پیسے بٹورتا ہے۔ لیکن اسی گاؤں کے سینکڑوں لوگوں کو کھانے کےلیے دو وقت کی روٹی اور صحت کےلیے علاج معالجے کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہے۔ ہمارے دیس میں ہر شہر میں بڑے بڑے سکول کالج اور عصری تعلیم کے ادارے میسر ہیں، لیکن یہاں احترام انسانیت دور دور تک نہیں سیکھائی جاتی ہے۔

ہمارے دیس میں بڑے بڑے نامی گرامی ادیب ہیں، بڑے بڑے خطیب ہیں اور بڑے بڑے اہل علم موجود ہیں، لیکن پڑوسی کے حقوق کا کسی کو ذرا برابر خیال نہیں ہے۔

ہمارے دیس میں بھوک اور پیاس سے روزانہ کہیں نہ کہیں سرعام لوگ خودکشیاں کررہے ہیں اور ایک ایک محلے میں تین تین مدرسے اور مسجدیں بنا کر ہم رب کو راضی کررہے ہیں۔ ہمارے ملک میں تعلیم اور فلاحی ادارے کاروبار کا بہترین ذریعہ بن چکے ہیں لہذا آپ دیکھیے گے کہ جس جس شخص نے پہلے مدرسہ اور مسجد کے نام پہ لوٹا اب عصری تعلیم کے ادارے اور فلاحی ادارے کھول کر غریبوں سے دو وقت کا نوالہ چھین رہا ہے۔ ہمارے ملک میں روزانہ ٹنوں کے حساب سے کھانا ضائع ہوتا ہے، لیکن پڑوس میں بانٹتے وقت ہمارا رویہ یہ ہوتا ہے کہ وہ بھوکا مرجائے اسے دفع کرو، کھانا نالی میں بہا دو اور روٹی پرندوں کو پھینک دو کیوں کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ پرندوں کو روٹی پھینکے سے گھروں میں برکت نازل ہوتی ہے اور پڑوسیوں کو دینے سے نحوست آتی ہے کیوں کہ وہ پھر بار بار مانگے آتے ہیں۔ ہمارے دیس میں گندم گوداموں، ٹپوؤں میں پڑی پڑی خراب ہوتی رہتی ہے اور پڑوس میں غریب کے بچے فاقوں سے سسک سسک کر مر جاتے ہیں۔ ہمارے دیس میں دین کے نام پہ کروڑوں روپے کے چندے دیے جاتے ہیں اور غربت کے نام پہ طعنے دیے جاتے ہیں۔ ہمارے ملک کے بازار مہنگائی اور ملاوٹ کی موت بانٹتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کاروبار میں سب چلتا ہے۔ ہم اپنے غریب رشتہ داروں اور پڑوسیوں کا حق زکوتہ و صدقات کھا کر حج اور عمرے پہ روانہ ہوتے ہیں اور بھوک اور غربت سے سسک سسک کر جینے والے رشتہ داروں کو حق دینے کی باری آتی ہے تو مدینے کی کجھوریں کھلا کر ان کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم بظاہر مساجد میں حاجی نمازی کہلاتے ہیں اور باہر آکر سودی، ذانی اور دوسروں کے حقوق دبانے والے کیوں بن جاتے ہیں؟

جس معاشرے میں ہر صبح کی ابتدا ہی حق تلفی اور اپنے بھائیوں کو نیچا دکھانے سے ہوتی ہو، وہ معاشرے کیا خاک ترقی کیا کرتے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں وہ معاشرے، وہ دیس ہمیشہ مقروض اور دنیا بھر میں عبرت کا نشان ہوا کرتے ہیں۔ آج ہماری بے حسی کی وجہ سے ہمارے دیس کی حالت کچھ ایسی ہی ہوچکی ہے۔ آج ہم ضرورت مندوں میں بے حساب بانٹنے کا مزاج پیدا کریں، کل اپنے ملک میں ہر طرف برکتیں اور خوشیاں اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ بہت بنالیے! یہ محلات یہ دینی و فلاحی ادارے، اب بس کردو اس دیس کو اب مزید فلاحی، عصری تعلیم کے اداروں، مسجدوں اور مدرسوں کی حاجت نہیں ہے بلکہ اس دیس میں کروڑوں لوگوں کو آج بھی جگہ جگہ دو وقت کی عزت کے ساتھ روٹی کی حاجت ہے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-