’ہمارا وجود ختم ہو رہا ہے اب یا عمران خان رہے گا یا ہم‘

اس کے لیے ہم ہر حد تک جائیں گے پھر یہ بھی نہیں سوچیں گے کیا جمہوری ہے کیا غیر جمہوری، کیا اصولی ہے اور کیا غیراصولی ہے، عمران خان نے اس سٹیج پر لاکھڑا کیا اور یہ اس کا قصور ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ کا انٹرویو

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب کے صدر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ہمارا وجود ختم ہو رہا ہے، اب یا عمران خان رہے گا یا ہم یعنی اب دونوں میں سے کسی ایک کا وجود باقی رہنا ہے۔ تفصیلات کے مطابق میڈیا کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ہم ہر حد تک جائیں گے پھر یہ بھی نہیں سوچیں گے کہ کیا جمہوری ہے کیا غیر جمہوری، کیا اصولی ہے اور کیا غیراصولی ہے۔
اس پر صحافی نے سوال کیا کہ آپ کے ماننے والے چاہنے والے لاکھوں میں ہیں وہ یہ بات سنیں گے تو عمران خان پر حملہ کریں گے، جس پر رانا ثناء اللہ نے جواب دیا کہ کیا عمران خان کے ساتھ جتنے لوگ ہیں وہ ہمیں اپنا دشمن سمجھتے ہیں؟۔ صحافی نے مزید پوچھا کہ اس سے تو انارکی پھیلے گی، جس کے جواب میں وفاقی وزیر داخلہ نے کہا کہ انارکی تو پھیلی ہوئی ہے اور کتنی انارکی پھیلے گی؟اب یا عمران خان سیاست سے منفی ہوجائے گا یا ہم ہوجائیں گے، عمران خان نے اس سٹیج پر لاکھڑا کیا اور یہ اس کا قصور ہے۔

جبکہ دوسری طرف چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کا مینار پاکستان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ نے طے کیا ہوا ہے کہ عمران خان کو نہیں آنے دینا لیکن جب قوم فیصلہ کرلے تو پھر کوئی طاقت اُسے نہیں روک سکتی، بڑی رکاوٹوں کے بعد مینار پاکستان پہنچنے پر عوام کو سلام پیش کرتا ہوں، ہماری حکومت کو سازش کے تحت گرا کر جرائم پیشہ افراد کو ملک پر مسلط کیا گیا، سازش کے تحت ملک کو دلدل میں پھنسایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج پیغام جانا چاہیے لوگوں کا جنون طاقت سے نہیں روکا جاسکتا، اللہ دلوں میں سوچ ڈال دے تو پھر کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی، کئی ممالک میں وقت گزار کر دیکھا کہ عوام ناانصافی کیخلاف کھڑے ہوجاتے ہیں، میں نے اپنی قوم کو ہر ظلم برداشت کرتے دیکھا، جو قوم ظلم کے خلاف کھڑی نہیں ہوتی وہ غلام بن جاتی ہے اور غلام صرف اچھے غلام ہوتے ہیں اور اُن کی زندگی ذلت والی ہوتی ہے۔
سابق وزیراعظم نے کہا کہ جب خوف کا بت ٹوٹ جائے تو حقیقی آزادی مل جاتی ہے اور اُن قوموں کو آزادی ملتی ہے جن معاشروں میں قانون کی حکمرانی ہوتی ہے، انصاف کا مطلب امیر اور غریب کیلیے ایک ہی قانون کا ہونا ہے، جو معاشرہ کمزور کو طاقتور کیخلاف انصاف دیتا ہے وہ ترقی کرتا ہے لیکن پاکستان میں قانون کی حکمرانی نہیں اس لیے یہاں جنگل کا قانون ہے، طاقتور چاہیے جو کچھ بھی کرے قانون اُس کے آگے بے بس ہے، جس ملک میں غریب کے مقابلے میں صرف امیر لوگوں کو انصاف ملے اُسے بنانا ریپبلک کہتے ہیں، ہمارے یہاں بدقسمتی سے غریب آدمی تھانہ کچہری میں ٹھوکریں کھاتا ہے جبکہ یورپ میں تھانہ کچہری کا کوئی تصور نہیں ہے۔