عمران خان : ایک رجحان—-

توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کے لیے پولیس کی کوششوں کے گرد سیاسی ڈرامے نے چاروں طرف ایک بحث چھیڑ دی ہے۔ عمران خان کے مخالفین قانون کے سامنے “ہتھیار ڈالنے سے گریز” کرنے پر انہیں طعنے دے رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو اعلیٰ عدالتوں کو تنقید کا نشانہ بنانے کی حد تک چلے گئے ہیں جس کو وہ پی ٹی آئی اور اس کے کارکنوں کے ساتھ نرم سلوک کہتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ عدلیہ یا تو عمران خان ​​کی غنڈہ گردی سے خوفزدہ ہے یا ان کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے۔ دوسری طرف عمران خان اور ان کے حامی حکومت پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ ہر ممکن حربے استعمال کر کے انہیں سیاست سے بے دخل کرنے کی سازش کر رہی ہے۔ ان کے نزدیک حکومت کے تمام اقدامات بدنیتی سے داغدار ہیں۔

عمران خان خود حکومت پر انہیں قتل کرنے کے مذموم عزائم کا ذکر کر رہے ہیں۔ اس لیے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ میرے اردگرد ڈھال رکھیں اور گرفتاری سے بچنے میں مدد کریں۔ انتظامیہ کی کھلی مخالفت میں عمران خان کی حکمت عملی اب تک کامیاب نظر آتی ہے۔پنجاب میں عمران خان کی حکمت عملی نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کو حوصلہ دیا ہے جنہوں نے مسلم لیگ ن کی لاہور میں طاقت کی بنیاد ہلانے میں اہم کردار ادا کیا۔حکومتی اتحادیوں سمیت کئی سیاسی حلقے اور تجزیہ کار بھی اس حکمتِ عملی پر حیران ہیں۔ان کے حامیوں کا ‘برگر اور جینز’ طبقے کے طور پر مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور حامیوں نے اپنے لیڈر کے ساتھ اپنی وفاداری اور وابستگی ثابت کی ہے، چاہے وہ صحیح ہو یا غلط،عمران خان حکومت کی تمام تر طاقت کا مقابلہ کرتے ہوئے گرفتاری کو ٹالنے میں کامیاب رہے۔ عمران خان کی طرف لوگوں کے اس جھکاؤ کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔

لوگ روایتی قیادت سے بیزار کیوں ہوئے ہیں؟ آبادی کا اتنا بڑا طبقہ ان کی پکار پر لبیک کیوں کہہ رہا ہے؟ اقتدار میں رہنے والی جماعتیں انتخابی سیاست میں ان کا سامنا کرنے سے کیوں کترا رہی ہیں؟ ملک کی سیاسی اور سماجی زندگی پر اتنا گہرا اثر رکھنے والے اس شخص کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمران خان کا غیر معمولی اثر تاجروں، ڈاکٹروں، وکلاء، ماہرین تعلیم، سماجی کارکنوں، این جی اوز اور دیگر طبقوں کے لیے ایک نئے ابھرتے ہوئے درمیانے ​​اور نچلے طبقے کی طرف اشارہ ہے، جنہیں روایتی حکمران اشرافیہ نے طویل عرصے سے نظر انداز کر دیا تھا۔ شناخت کی تلاش میں پرانی جماعتوں میں جگہ نہ رکھنے والوں کو پی ٹی آئی کی صورت میں ایک آسان پلیٹ فارم مل گیا ہے۔ایک باوقار اور آرام دہ زندگی کی خواہشات کے ساتھ، وہ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے عمران خان پر بھروسہ کرتے ہیں۔ موجودہ دور کے مسائل اور عوام کے سماجی و معاشی مسائل کو کامیابی کے ساتھ بیان کرتے ہوئے عمران خان نے اپنے حمایتیوں کو یقین دلایا ہے کہ وہ ان کے مسیحا ہیں۔ عمران خان نے اپنے سپوٹروں کو یقین دلایا ہے کہ دو پاکستان ہیں ایک ان کے لیے جو سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں اور دوسرا عام عوام کے لیے،اور بنیادی طور پر یہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جس نے اس طبقاتی تقسیم کو جنم دیا ہے جو اس کی پرورش کر رہا ہے۔پی ڈی ایم کی قیادت نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ عمران خان سے زیادہ بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی وفادار ہے۔ جہاں عمران خان آئی ایم ایف کی چند ایسی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کر رہے تھے جو عام شہریوں کے لیے اچھا نہیں ہوتیں، شہباز شریف نے ایسی عوام دشمن پالیسیوں پر عمل درآمد میں ذرا برابر بھی ہچکچاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔

عمران خان کی حکومت نے اپنے پورے دور حکومت میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 50 روپے کا اضافہ کیا لیکن شہباز شریف حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات میں بے مثال اضافہ کرکے عام لوگوں کی زندگی اجیرن کردی اور چند غریب رکشہ ڈرائیوروں کو مجبور کیا کہ وہ اپنی گاڑیوں کو آگ لگا دیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی 37.8 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔38 فیصد بچے ماں اور بچے کی غذائیت کی کمی کا شکار ہیں۔صرف 20 فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر ہے اور بے روزگاری کی شرح 6.5 فیصد ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس 2022 میں پاکستان 121 ممالک میں 99 ویں نمبر پر ہے جس کو ایک “سنگین” مسئلہ کا درجہ دیا گیا ہے۔2022 میں ورلڈ بینک نے پاکستان کی ترقی کی شرح 4 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی تھی لیکن 2023 میں اس نے پیش گوئی کی ہے کہ ترقی کی شرح 2 فیصد رہے گی حکومت بے روزگار آبادی کو ایڈجسٹ کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے ۔یہ تمام عوامل انقلاب کو بھڑکانے کے لیے کافی آتش گیر مواد فراہم کرسکتے ہیں، اور عمران خان ایسے انقلاب کے خلاف صرف ایک حفاظتی دیوار ہے۔مغرب نے جمہوری اصولوں پر مبنی فلاحی ریاست کا نظام وضع کرکے ایسے انقلاب سے اپنے آپ کو بچا لیا ہے۔پاکستان بھی جمہوریت پر مبنی فلاحی ریاست کے تصور کی طرف بڑھ کر اس مسئلے سے نمٹ سکتا ہے۔اس طرح ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جہاں ریاست کو بہت سے لوگ طبقاتی تسلط کا آلہ سمجھتے ہیں، اور ریاستی طاقت کو حکمران اشرافیہ عام لوگوں کا استحصال کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-