سپریم کورٹ ، میڈیکل طلباء کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسی نے میڈیکل طلباء کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران سپیشل بنچ بنانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کیس سننے سے انکار کردیا اور ریمارکس دیئے ہیں کہ میڈیکل طلبا ء کو حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر اضافی نمبر دینا سمجھ سے بالاتر ہے،یہ حساس معاملہ ہے، مسلمان حفظ اللہ کیلئے کرتا ہے نمبر لینے کیلئے نہیں،کیا کسی عیسائی کو انجیل حفظ کرنے پر اضافی نمبر ملتے ہیں ۔
تفصیلات کے مطابق بدھ کو سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی اسپیشل بینچ نے میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر اضافی 20 نمبر دینے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔
دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر اضافی نمبر دینا سمجھ سے بالاتر ہے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ صرف میڈیکل ڈگری ہی نہیں ہر شعبے میں حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر 20 اضافی نمبر دیے جاتے ہیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ یہ حساس معاملہ ہے، مسلمان حفظ اللہ کیلئے کرتا ہے نمبر لینے کے لیے نہیں، کیا کسی مسیح کو انجیل حفظ کرنے پر 20 اضافی نمبر ملتے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیس کو تبھی سنا جا سکتا ہے جب شفافیت سے مقرر ہوا ہو، شفاف طریقہ کار سے مقرر نہ ہونے والے مقدمات کے فیصلے پر بھی سوالات اٹھتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کا کام کرنے کا طریقہ کار ایک معمہ ہے جو میری سمجھ سے بالاتر ہے جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اس طریقہ کار سے یہ کیس نہیں سن سکتا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت کے دوران کیس پر ’خصوصی’ بینچ بنانے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے سپیشل بنچ میں کیس سننے سے انکار کر دیا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ رولز میں کہاں درج ہے کہ خصوصی بینچ بنایا جا سکتا ہے، سپریم کورٹ کا ریگولر بینچ کیسز کیوں نہیں سن سکتا ۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اتنا بھی کیا ضروری معاملہ تھا کہ لارجر بینچ یا فل کورٹ کے بجائے خصوصی بینچ بنایا جائے۔قاضی فائز عیسیٰ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا اسپیشل بینچز بنائے جانے چاہئیں، ہاں یا نہ میں جواب دیں۔اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی نے کہا کہ اگر عدالت اس معاملے پر نوٹس کرے گی تو جواب دے دوں گا۔پی ایم ڈی سی کے وکیل نے دلائل دیئے کہ روایت پر بھی عمل ہوتا ہے،ضروری نہیں کہ ہر چیز رولز یا آئین میں درج ہو اس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیا مارشل لا لگ جائے تو اس کو بھی روایتی عمل سمجھ کر قبول کر لیں گے، جو آئین و قانون میں درج ہو اسی پر عمل کرنا ہوتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تین ججوں کو تین مختلف بینچوں سے اکٹھا کرکے اس بینچ میں بٹھا دیا ہے، یا تو کچھ اتنا اہم ہوتا کہ چھٹی کے دن عدالت لگتی اور خصوصی بینچ بنایا جاتا، میڈیکل کے طلبہ کو حافظ قرآن ہونے پر 20 اضافی نمبر دینے کا حکم 14 ماہ پرانا ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اگر 20 اضافی نمبر حافظ قرآن ہونے کی بنیاد پر دینے ہیں تو پارلیمان سے قانون سازی کرائیں، کیا پارلیمان کا احتساب نہیں ہوتا، کیا جج قابل احتساب نہیں، میرے علم کے مطابق ججوں کا کوئی احتساب نہیں ہوتا۔
انہوں نے ریمارکس دیئے کہ چیف جسٹس قتل کے ایک ملزم کا کیس کل فکس کر دیں اور ویسا ہی دوسرا کیس مقرر نہ کریں تو کیا ہو گا، ججوں پر غیر ضروری الزامات لگنے نہیں چاہئیں۔دوران سماعت جسٹس فائز عیسیٰ نے ججوں کے کنڈکٹ سے متعلق خبر نشر نہ کرنے کے پیمرا کے خط پر تنقید کی اور ریمارکس دیئے کہ حال ہی میں پیمرا نے ججوں سے متعلق کوئی خط جاری کیا ہے، پاکستان میں سب آزاد ہیں جس کے دل میں جو آتا ہے وہ کرتا ہے، کوئی میڈیا کی آزادی کیسے دبا سکتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ تاثر یہ جاتا ہے کہ شاید عدالت نے لوگوں کا گلا گھونٹ دیا ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پیمرا نے اپنے خط میں سیٹلائٹ چینلز کو ججوں کے کنڈکٹ اور ریاستی اداروں پر خبر چلانے سے روکا ہے اس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ ریاستی ادارے کیا ہوتے ہیں، سپریم کورٹ ریاستی ادارہ نہیں بلکہ آئینی ریگولیٹری باڈی ہے، پیمرا نے تو سپریم کورٹ کے اسٹیٹس میں ترقی کر دی۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ کیا پیمرا نے عدلیہ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے، پیمرا ٹی وی چیلنز کو کچھ نشر کرنے سے کیسے روک سکتا ہے، سول جج کو گالیاں دے دی جائیں پیمرا نہیں بولتا، کیا ماتحت عدلیہ کے جج کم تر مخلوق ہیں قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اگر میں اٹارنی جنرل کو کچھ دے ماروں اور کورٹ رپورٹرز خبر دے دیں تو ان کا چینل بند ہو جائے گا، پیمرا چینلز پر پابندی لگا کر ٹی وی انڈسٹری تباہ کر رہا ہے، پیمرا انہی ٹی وی چینلز کے لائسنسوں پر کماتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جب ٹی وی خبریں نہیں چلا سکے گا تو عوام سوشل میڈیا ہی دیکھیں گے، پیمرا کا یہ خط شرعی عدالت میں جائے تو اسلام کے منافی ہونے پر بھی معطل ہو جائے گا، اگر کوئی جھوٹی خبر دے تو اس کے خلاف پیمرا کارروائی کرے۔انہوں نے کہا کہ پیمرا کیوں سیشن، سول جج یا مجسٹریٹ کے خلاف بولنے پر کارروائی نہیں کرتا، پچھلے سال جنوری میں یہ کیس لگانے کو کہا اور رجسٹرار صاحب نے مقرر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے جج بن جائیں تو کوئی آپ کو پوچھ نہیں سکتا، یہی وجہ ہے کہ پاکستانی عدلیہ کا نمبر 140 کے قریب ہے۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اتنی دفعہ مارشل لا لگ چکا ہے کہ پیمرا سمیت سب کی ذہنیت نہیں بدلی، کیا آپ ملک کو سیکیورٹی اسٹیٹ بنانا چاہتے ہیں۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ اگر میں غلط کروں تو میرا کنڈکٹ کیوں زیر بحث نہیں آسکتا۔