“امید” اور “خوف” کے درمیان!!

جب بھوک اور غصہ اکٹھے ہو جاتے ہیں تو لوگ جلد یا بدیر سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور لینن کی اس بات کا ثبوت دیتے ہیں کہ ایسے حالات میں شہریوں کے پاؤں سے ووٹ دینا انتخابات میں ووٹ دینے سے زیادہ کارآمد ہے۔ کیا آپ نے دوکاندار سے راشن خریدنے کے بعد گھر آکر کسی بینر پہ موٹے حروف سے یہ لکھا ھے کہ میں فلاں دوکاندار کا تہہ دل سے مشکور ہوں جس نے مجھے سودا سلف دیا۔ کیا کبھی سبزی منڈی سے سبزی خریدنے کے بعد آپ نے فیس بک پر اس سبزی والے کی تصویر کے ساتھ یہ پوسٹ کی ھے کہ آج مجھے آلو، بینگن اور ٹماٹر دینے پر میں سبزی فروش کو خراج تحسین پیش کرتا ھوں؟

کیا کبھی آپ نے بس میں سفر کرکے منزل پر پہنچنے کے بعد آسمان کو پُرشگاف نعروں سے لرزا دیا ھے کہ ہم ڈرائیور کے شکر گزار ہیں کہ جس نے ہمیں اپنے علاقے سے منزل تک پہنچایا۔ یقینا آپ کا جواب نہیں میں ھوگا۔ اگر میں پوچھوں کیوں؟ تو آپ کا جواب یہ ھوگا کہ دوکاندار نے کونسا ہمیں فری کا راشن دیا ھے، ہر چیز حتٰی کہ ماچس تک کے پیسے دیئے ہیں۔ سبزی والے نے ہم پر احسان نہیں کیا ہر چیز کی رقم وصول کی ھے، اب بھلا اس کے نام کے نعرے کیوں لگائیں؟ بس والے کا ہم کیوں جے جے کار کریں، ہم نے اس کو کرایہ دیا ھے بہت خوب ، اور یہ جواب مناسب ھے بلکہ یہی بہترین جواب ھے۔ اب اصل بات کی طرف آتے ہیں آپ کا ایم پی اے ، ایم این اے ، سینیٹر ، وزیر ، کیا یہ فی سبیل اللہ آپ کے علاقے میں کام کرتے ہیں؟ کیا یہ اپنا ذاتی پیسہ آپ پر خرچ کر رھے ہوتے ہیں؟ کیا یہ خدمت کے جذبے سے اپنے درجات کی بلندی اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام کے حصول کے لئے سیاست میں آئے ہیں؟ یہاں بھی آپ کا جواب نہیں میں ھوگا تو کیا وجہ ھے کہ ایک ٹرانسفارمر کی مرمت پر لمبی چوڑی تعریفی تحریریں ان کے نام کرتے ہیں کیا وجہ ھے کہ ایک ٹیوب ویل لگانے پر ہم ان کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں؟ کیا وجہ ھے کہ روڈ کی مرمت پر ہم ان کی دست بوسی کر رھے ھوتے ہیں۔ کیا وجہ ھے کہ بجلی یا پانی یا نالیوں کے مسائل حل کرنے پر ہم ان کی مدح و ثناء میں موٹے موٹے الفاظ ڈھونڈ کر ان کی خدمت میں پیش کر رھے ھوتے ہیں؟

کیا انہوں نے ہم پر احسان کیا ہے؟ نہیں بلکہ یہ ہمارے ٹیکس کے پیسوں سے تنخواہ لیتے ہیں اپنا علاج ہمارے پیسوں سے کرواتے ہیں،اپنے بچوں کو بڑے بڑے اداروں میں ہمارے پیسوں سے پڑھاتے ہیں،دبئی اور یورپ کے تفریحی دورے ہمارے پیسوں سے کر رھے ھوتے ہیں۔ بڑے بڑے محلات، گاڑیاں، گارڈز، سب کچھ ہم سے لُوٹ کر حاصل کرتے ہیں،ان کا پیٹرول ڈیزل فری، ٹیلیفون کالز فری، ملکی و غیر ملکی سفر فری، علاج معالجہ فری، فری کا مطلب عوام کو نچوڑ کر ان سے ٹیکسز کے ذریعے سب مزے اڑا رھے ہیں اور عوام کی یہ حالت ھے کہ روڈ بننے پر ناچ رھی ھے، نالی بننے پر ایم پی اے، ایم این اے کے سامنے تشکرانہ آنکھوں سے شکریہ ادا کر رھی ھے۔اپنی اہمیت کو سمجھو یہ غلامانہ سوچ ختم کردو، کوئی تعریفی بینر یا تحریر ان کے حق میں نہ لکھیں، بلکہ اپنے حقوق ان کے سامنے رکھ کر زبردستی ان سے لیں۔

آپ ہی اصل طاقت ہیں، آپ کے بغیر یہ لوگ بھی آپ جیسے ہیں،یہ کوئی غیر معمولی یا انوکھی طاقت کے مالک نہیں، یہ آپ کی وجہ سے راج کر رھے ہیں، اور آپ ایک سٹریٹ لائٹ لگانے پر اپنے ایم پی اے، ایم این اے پر فدا ہو جاتے ہیں۔اس غلامانہ سوچ کو اُتار پھینکو۔ ہماری زندگی کرپشن، دہشت گردی، غربت اور انتہائی مہنگائی سے بھری پڑی ہے۔ قوم موت کو گلے لگا کر ایک لمبا عرصہ گزار چکی ہے کہ سکون سے زیادہ تشدد معمول بن گیا ہے۔ پاکستان کا خواب کیا تھا؟ آمریت کے بجائے جمہوریت، انسان کی حکمرانی کے بجائے قانون کی حکمرانی، لاقانونیت کے بجائے قانون، سنسر شپ کے بجائے میڈیا کی آزادی،آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ پاکستان کے ایک ہاتھ میں ایٹم بم اور دوسرے ہاتھ میں کشکول ہے۔ سپریم کورٹ اور میڈیا کے علاوہ ریاست کے تمام ستون ناکارہ ہو چکے ہیں۔ عوام کی مرضی کی نام نہاد مجسم پارلیمنٹ جعلی ہے۔ آج ہمارے پاس ایک ناقص، بدعنوان اور کمزور حکومت ہے جس کی کارکردگی کی وجہ سے عدم اطمینان سے انقلاب تک صرف ایک قدم باقی ہے۔پاکستان تھکا ہوا، دھندلا ہوا اور نظریاتی اور اخلاقی طور پر دیوالیہ نظر آتا ہے، جو صرف کرپٹ نظام اور حکمرانوں کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ وہ اور ان کا وزیر اعظم دونوں ہی غلام، متعصب، امریکی حمایت پر بہت زیادہ انحصار کرنے والے، اپنے لیے امریکی مدد حاصل کرنے اور اقتدار میں رہنے کے لیے قومی مفاد کو قربان کرنے کے لیے تیار ہیں۔

جب تک ہم تمام کرپٹ، بوسیدہ، خستہ حال اسٹرکچر کو نیچے نہیں گِرا لیتے—– حتمی تباہی ناگزیر ہے۔ وہ وقت آ گیا ہے جب خودمختاری یعنی پاکستانی عوام کو خود پر پوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ عوام کے پاس ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ اور مکمل طور پر بدعنوان اور کرپٹ نظام کو ختم کرنے کا موقع ہے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-