جہیز، ولیمہ اور نصاب تعلیم

جہیز اور ولیمہ ایک معاشرتی ناسور بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا پر جہاں آئے روز عبث قسم کی ویڈیوز کی بھرمار ہے۔وہیں گزشتہ دنوں کے پی کے سے ایک خوش نما ویڈیو وائرل ہوئی ہے۔ جس میں ایک شخص نے ولیمہ کی فضول رسومات کو ختم کرتے ہوئے اپنے اردگرد کے 600 ضرورت مند خاندانوں میں راشن اور نقدی تقسیم کی ہے۔ اس ویڈیو کو دنیا بھر میں بسنے والے مسلم صارفین نے خوب سراہا ہے۔
اس وقت برصغیر پاک و ہند میں جہیز کی نحوست سے شاید ہی کوئی گھر محفوظ ہو۔ کیا امیر، کیا غریب سبھی اس وقت مہنگائی کے ہاتھوں جہیز کی رائج الوقت رسومات سے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں۔

اس کی مذمت پر بہت کچھ لکھا جاچکا؛ بہت کچھ بیان ہو چکا ہے۔ لیکن یہ مسئلہ جوں کا توں کھڑا ہے۔ یہ مسئلہ چونکہ انفرادی نہیں ہے بلکہ اجتماعی ہے۔ لہذا مل جل کر اس کے سدباب کی حاجت ہے۔ درحقیقت یہ رسم لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے اگر وہ مردانگی کا مظاہرہ کریں تو اس رسم کی بیخ کنی ہوسکتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ رسم اس قدر شدت سے رائج ہے کہ اگر کوئی لڑکی بغیر جہیز کے بیاہ کے، لے آئیں؛ تو لڑکے کے گھر والے عمر بھر لڑکی کو جہیز نہ لانے کے طعنے دے دے کر مار دیتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ لڑکی اور اس کے گھر والوں کے ذمے کوئی قرض تھا۔ جس کی ادائیگی ہر حال میں ان پہ فرض تھی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں رشتوں کا دور دور تک کوئی تقدس نہیں رہا ہے۔ ہم رشتوں کو بیچتے ہیں اور جتنا بڑا گاہک مل جائے ہم اتنا ہی زیادہ بہاؤ طے کرتے ہیں۔ لہذا آج آپ کو رشتوں میں دور دور تک قربت اور مٹھاس نظر نہیں آئے گی۔ بلکہ آج کل رشتے زر کے ہوچکے ہیں جس کے پاس جتنا مال و زر ہوگا اس کے اتنے ہی زیادہ رشتے دار اور تعلق دار ہوں گے۔ اور جو بیچارہ مالی طور پر فرسودہ حال ہوگا تو اس کو کوئی رشتے دار تو دور کی بات؛ اپنے جیسا انسان بھی کوئی ماننے کےلیے تیار نہ ہوگا۔

ویسے بھی ہمارے ملک میں رہنے کےلیے آج کل دو چیزیں لازم و ملزوم ہو چکی ہیں۔ مال و زر اور کھڑ پینچی۔ کیوں کہ ہمارے ملک کی اکثریت کا ذہن بن چکا ہے کہ اچھی باتیں اور حسن اخلاق صرف کتابوں میں اچھا لگتا ہے عملی طور پر اس کی حاجت نہیں ہے۔ اس کی بنیادی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ہمارے نصاب تعلیم کی عصری تقاضوں سے ہم آہنگی نہ ہونا ہے۔ میرے پاس اس وقت سرکاری و نیم سرکاری تعلیمی اداروں کا پرائمری سے پی ایچ ڈی لیول تک نصاب موجود ہے۔ جن میں اکثر کتابوں کے تمہید میں ان درجنوں مؤلفین کے نام درج ہیں جو نصاب کو مرتب کرتے ہیں۔ لیکن افسوس جن پروفیسر نے یہ نصاب تیار کیا وہ مؤلف تو ہیں مصنف نہیں ہے۔ لہذا جن لوگوں نے نصاب مرتب کیا وہ خود نقال ہیں تو پڑھنے والے کیا خاک تخلیق کار ہوں گے۔ اس نصاب تعلیم میں صدیوں پرانے وہی غالب، منشی پریم چند، میرتقی میر، انگلش قواعد کے پرانے اصول، ریاضی اور سائنس کے پرانے نظریات کو کبھی چھوٹے کبھی بڑے حروف میں چھپوا کر ہمارے نصاب کے مؤلفین خوشیاں مناتے ہیں۔

کیا ہم یہ بات پوچھنے کی جسارت کرسکتے ہیں کہ دو سو سال قبل کا رائج کیا گیا نصاب کبھی اردو یا انگلش میں پڑھنا پڑھوانا کون سی دانشمندی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے ہم ڈھانچہ نما قوم ہیں اور دیگر اقوام کے لوگ جب چاہیں ہمیں ربوٹ بنا کر گھما لیتے ہیں۔ عقل، تخلیق، شعور اور استعداد ہمارے اندر پیدا ہی نہیں ہونے دی جارہی ہے یا ہم خود اس کو ہتک عزت سمجھتے ہیں۔ مذکورہ بالا تمام باتیں تلخ ضرور ہیں مگر ہم اس سے مبراء نہیں ہوسکتے ہیں۔ ہماری نسلیں کل ضرور ہم سے یہ سوال کریں گی اور ہم کب تک قوم سے حقائق چھپاتے رہیں گے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-