میانمار میں فوجی بغاوت کے بعد سے خونریز ترین دن، سو سے زائد مظاہرین مارے گئے

اسلام آباد (میڈیا ڈیسک) آج اتوار کو میانمار کے مختلف شہروں میں عوام نے ملکی سکیورٹی دستوں کے ہاتھوں ایک روز قبل 114 افراد کی ہلاکت کا سوگ منایا۔ مظاہرین نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ فوج کے خلاف احتجاج جاری رکھیں گے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق ہفتہ ستائیس مارچ کو جب میانمار کی فوج کا قومی دن منایا جا رہا تھا، اسی دن فوج کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والوں میں بچے بھی شامل تھے۔
ہلاکتوں پر عالمی ردعمل
اقوام متحدہ کے تفتیشی افسران نے ان ہلاکتوں کو میانمار میں فوج کی جانب سے ‘قتل عام‘ قرار دیا ہے۔ میانمار میں تعینات امریکی سفیر تھامس وجدا کا کہنا تھا، ”یہ خون ریزی انتہائی ہولناک ہے، میانمار کے عوام نے صاف الفاظ میں بتا دیا ہے کہ وہ فوجی آمریت کے سائے میں نہیں رہنا چاہتے۔
اسی بارے میں میانمار میں یورپی یونین کے وفد کی جانب سے کہا گیا، ”ہفتے کا دن دہشت کے دن کے طور پر یاد کیا جائے گا۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب ٹام اینڈریوز کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ دنیا کچھ کرے، اگر اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کے ذریعے نہیں تو بین الاقوامی ایمرجنسی سمٹ کے ذریعے۔ انہوں نے کہا کہ میانمار میں فوج اور فوجی حکمرانوں کی مالی مدد بند کی جائے اور انہیں اسلحہ بھی فراہم نا کیا جائے۔ اینڈریوز کے مطابق، ”جب فوج ان کا قتل عام کر رہی ہے، تو صرف مذمتی الفاظ اور محض تشویش اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کے عوام کے لیے کافی نہیں ہیں۔
فوج کا کرپشن سے متعلق الزام مضحکہ خیز ہے، ا?نگ سان سوچی کے وکیل
میانمار میں فوجی حکومت کے خلاف مظاہرے جاری، مزید چھ ہلاکتیں
دوسری جانب دنیا کے بارہ اہم ممالک کے فوجی سربراہان نے اپنے ایک مشترکہ بیان میں میانمار میں اقتدار پر قابض فوج کی طرف سے طاقت کے پرتشدد استعمال اور سینکڑوں شہری ہلاکتوں کی مذمت کی ہے۔
ان عسکری رہنماو ¿ں نے مطالبہ کیا کہ میانمار کی فوج کو پیشہ وارانہ فوج کے بین الاقوامی معیارات کا احترام کرنا چاہیے۔ اس بارے میں جاری کیے گئے ایک اعلامیے پر امریکی فوج کے چیف آف سٹاف مارک مِلی اور کئی دیگر ممالک کی مسلح افواج کے سربراہ?ان نے دستخط کیے۔ ان ممالک میں آسٹریلیا، کینیڈا، جرمنی، یونان، اٹلی، جاپان، ڈنمارک، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، جنوبی کوریا اور برطانیہ شامل ہیں۔
میانمار کی فوج کے حمایتی
مغربی دنیا کی جانب سے میانمار کی فوج کی خونریز کارروائیوں کی وجہ سے مذمت کے باوجود اس طاقت ور فوج کے دوست اب بھی موجود ہیں۔ روسی نائب وزیر دفاع آلیکسانڈر فومن نے ہفتے کے روز ملکی دارالحکومت نیپیداو میں منعقدہ فوجی پریڈ میں حصہ لیا۔ انہوں نے ایک روز قبل ملکی فوج کے اعلیٰ افسران سے ملاقات بھی کی تھی۔
روس سے اگر اس پریڈ میں نائب وزیر دفاع شریک ہوئے، تو اسی تقریب میں حصہ لینے کے لیے پاکستان، بھارت، چین، بنگلہ دیش، ویت نام، تھائی لینڈ اور لاو ¿س نے بھی اپنے نمائندے بھیجے۔
میانمار کی فوج کے لیے روس اور چین کی حمایت اس لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ یہ دونوں ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل اراکین ہیں اور میانمار کی فوج کے خلاف عالمی ادارے کے کسی بھی ممکنہ فیصلے کو ویٹو کر کے ناکام بنا سکتے ہیں۔
اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک کی فوج کا کہنا ہے کہ مسلح افواج نے اقتدار پر قبضہ اس لیے کیا کہ گزشتہ نومبر کے ان انتخابات میں، جن میں آنگ سان سوچی کی جماعت کامیاب ہوئی تھی، دھاندلی کی گئی تھی۔ ملکی الیکشن کمیشن تاہم فوج کے ان الزامات کو مسترد کرتا ہے۔
آنگ سان سوچی اور ان کی جماعت کے کئی رہنما فروری کے اوائل میں فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک فوج ہی کی حراست میں ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں