آزادی یا غلامی؟؟؟؟؟؟

آنکھ دیکھ نہیں سکتی ، کان سن نہیں سکتے ، عوام ہے مگر گونگی ،ہاتھ لمبے ہیں لیکن مجرم تک پہنچ نہیں سکتے ہم نے بڑی مشکلوں سے چار وں ستونوں کو کھڑا ہوتے ہوئے ، ایمان، ، اتحاد،انصاف اور یقین کا نظارہ کیا تحریک پاکستان کاجذبہ ،آزادی کی جنگ لاکھوں قربانیوں کے بعد ایک خواب سچ کرنے کی کوشش اسخواب کو پورا کرنے کےلئے ملک کے چار ستون آپس میں ایسے اپنی اپنی جگہوں پرڈٹے رہے کہ اس خواب کو شرمندہ تعبیر ہونے سے کوئی نہیں روک سکا نہ دشمنوں کی کمی رہی اور نہ ہی دوستوں کی کوئی معرکہ ہو ایا ٓزادی کی جنگ یا خدا کے دشمنوں سے جنگ، دونوں جنگیں نہ صرف جائز ہیں بلکہ ایسے حالات میں جان کے نذرانے پیش کرنے والوں کو قوم آج بھی سلام کرتی ہے اور قیامت تک اپنے محسنین کی ممنون رہے گی۔ مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی جنگ مکمل نہیں جیتی جا سکی جنگ ادھوری ہے دشمن ہار کے بعد پاگل کتے کی طرح ہمارے پیچھے پڑا ہوئے ہیں اور سامنے آنے سے نہ صرف ڈرتے ہےیں بلکہ چھپ کر وار کرنے سے ذرا پیچھے نہیںہٹتے اور ہمیشہ موقع پرستوں کی تلاش میں موقع پرست رہتے ہیں.
دنیا کا کوئی ملک نہیں جو حالت جنگ میں نہ ہو اور جن ملکوں میں جنگیں جاری رہتی ہیں وہاں کے عوام مسائل کی دلدل میں پھنس جاتے! بلکہ انہیں زندگی کی کوئی لہر نظر نہیں آتی اور مایوس ہو کر خاموش ہو جاتے ہیں ،کیونکہ دلدل میں پھنسے والوں کو ایک معمولی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر اس زندگی میں روشنی آجاتی ہے۔ ایسے حالات کا مشاہدہ سب سے پہلے آنکھ کرتی ہے اور اور کان سننتے ہیں زبان میں قوت گویائی نمودار ہوتی اور پھر ہاتھ مدد کو پہنچ جاتے ہیں۔ ملکی حالات کچھ ایسے ہی تھے تحریک آزادی کے بعد ہر کسی کے چہرے پر خوشی کے منظر دیکھنے کے قابل تھے لاکھوں ، قربانیوں کے باوجود ملی جذبہ ختم نہیں ہوا جب جنگ اپنے لئے لڑی جاتی ہے تو اس میں ہارنے کےلئے وجوہات پیدا ہو جاتی ہیں۔ مگر جنگیں جب اپنے ملک قوم ، گھر ، بھائی بہن اور ماں کے لئے لڑی جائیں تو نیک دعائیں پیچھا کرتی ہیں 2021واں سن ہے سن کوئی بھی ہو کبھی اپنی تپش میں فرق نہیں کیا ،امیر ، غریب پر یکسان اثر ہوتا ہے سورج ہمیشہ کی طرح اپنے روز کے جذبے اور آب و تاب سے نمودار ہوتا ہے بس!نہ جانے کب دشمن کی نظر لگی! اور ہم شیرازے کی طرح بکھر رہے ہیں ملک کا کوئی ایسا ادارہ نہیں جہاں پر تنظیم سازی نہ کی جارہی ہو آخر یہ تنظیم سازیاں کہاں سے آئیں اس کا سبق ہم کو کس نے دیا۔ احساس محرومی کا سبق ہم نے کہاں سے سیکھایہ ہمارا ملک امن کا گہوارہ ہے تحریک آزادی کی جنگ لڑتے ہوئے بھی تنظیم سازیاں ہوئیں حالات بدلتے رہے ہم نے غور کرنا چھوڑدیا دشمن اپنی سازشوں سے باز نہ آئے اورہمارے ملک میں نہ صرف افراتفری کے خواب دیکھنے لگے بلکہ ہمارے اداروں کی طاقت کو آپس میں بانٹ دیا۔
ہماری آنکھ کو جو دیکھنا چاہیے وہ نہیں دیکھ رہی ہمارے کانوں کو جو آوازیں سنائی دی جانی چاہیں وہ نہیں آرہیں ہماری زبانوں پر تالے ہیں اور ہمارے ہاتھ ظلم کا راستہ روکنے کی بجائے مظلوم کے گربیان تک رہتے ہیں ظلم کے خلاف جہاد کرنے کی بجائے ہمارے ہاتھوں میں لوگوں کی پگڑیاں ہیں جن زبانوں پر وطن کے گیت ہونے چاہیے ان زبانوں پر شکوے ہیں ،گالیاں ہیں ایک آدمی ایک نعرہ لگاتا ہے بھوک سے ستائے ہوئے لوگ اسکی بات ماننے کے لئے مجبور ہو جاتے ہیں میں نہ تو مجبور ہوں اور نہ میرے ہاتھ بکے ہوئے ہیں نہ میں آنکھوں کی بینائی سے محروم ہے آج بھی میری زبان شعلے اگلتی ہے مگر یہ شعلے اپنے گھر کو جلانے کےلئے نہیں !بلکہ دشمنوں کے ارادوں کو ان کے ذہنوں میں بھسم کرنے کےلئے آج بھی جذبہ حب الوطنی سے سر شار ہیں ہم نے جن سے قلم کے طاقت کامشاہدہ کیا وہ آج بھی میرے نہ صرف قومی ہیرو ہیں تحریک آزادی کے تمام قومی ہیروز کو سلام پیش کرتے ہیں اور کر تے رہیںگے ۔ یہاں صرف قومی ہیروز کے قومی دنوں کو ایک چھٹی کے طور پر منایا جاتا ہے ہم نے اپنے بچوں کو کبھی اس کے متعلق بتایا ہی نہیں ہم نے کبھی اپنی نئی نسل کو قانوں کے احترام کے متعلق کچھ سمجھایا ہی نہیں۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے ہمارے آنکھیں چندھیا گئیں ہمارے کانوں میں سکے کی چھنک ہی سنائی دیتی ہے ہمارے ہاتھ امیر غریب ،چوہدری ، کمی جیسے آہہنی زنجیروں سے باندھ دیے گئے ہیں ہمارے ملک کا کوئی ایسا ادارہ نہیں ، سکول ،کالجز ، اخبار ، ٹی وی ، ریڈیو، رکشہ ، بس ، گاڑی ، ڈاکٹر ، حکیم ، واپڈا ، سوئی گیس۔ ،ہسپتال ،قومی ادارے ، کابینہ کے لو گ سب اپنی اپنی تنظیمیں بنا کر اپنے اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں آخر ہ میں ہمارے حقوق لینے سے کون روک رہا ہے ہمارے حقوق پر کون قابض ہے ہم اپنے اداروں سے جنگ کس لیے لڑ رہے ہیں یہ وہ خطرناک جنگ ہے جس نےہمیں لسانیت ،صوبائیت سے نکال کر اب اضلاع میں جھونک دیا ہے۔ جس کا ضلع ہے اس کی حکومت ہے سرکاری مشنیری سب اچھا دیکھانے کےلئے استعمال کی جاتی ہے نہ کہ مسائل کے حل لئے سالانہ کھربوں کا بجٹ آخر جاتا کہاں ہمارے ملکی اداروں کو بجٹ کے اس گورکھ دھندے میں نہ صرف بدنام کیا جاتا ہے بلکہ قوم کو دیکھایا جاتا ہے کہ یہی سچ ہے اگر یہی سچ مان لیا جائے آج تک جو بھی ترقی ہوئی اس کے پیچھے قومی جذبے سے سرشار ادارے اور عوام ہیں۔
آج اپنے ہی گھر میں ااپنے حق کی جنگ لئے طویل ترین احتجاج کئے جا رہے ہیں آخر احتجاج کرنے والوں کی باتوں میں چھپے ہوئے سچ کو کون تلاش کرے گا۔ نہیں میرے بھائی یہ کسی ایک کی ذمہ داری نہیں ہے۔ہوش کے ناخن لینے ہوں گے ہمیں انفرادی طور پر نہیں اجتماعی طور پر اس ملک کی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہو گیہمیں اپنے ملک ، قوم ، گھر ، شہر کی حفاطت سے کوئی قانون نہیں روک سکتا۔ اپنے قانون ساز اداروںکی معاونت کر سکتے ہیں اور ہونے والے ظلم کے متعلق لکھ سکتے ہیں ہم مظلوم کی فریاد سننے اور سنانے کے قابل ہو چکے ہیں آخر وہ کون سا دن ہے جب ہماری آنکھیں ، کان ، زبان اور ہاتھ ایک ہوں گے۔ اگر ایسا آنکھیں،کان اور زبان بند رکھی تو یاد رکھیے آزادی لیتے وقت جو خواب دیکھے تھے سب ملیا میٹ ہو جائیں گے اور ہمیں غلامی کی زنیروں میں جکر لیا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں