فیصلہ کب کریں گے؟ تحریر ( سمیع اللہ ملک)

اس بات کوتسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے کہ کشمیرکے مسئلے کاپرامن تصفیہ ہی خطے میں ترقی کی ضمانت ہے۔قریباً 73برس سے یہ مسئلہ اس خطے کی سلامتی کیلئےآتش فشاں بناہواہے۔اسی انسانی المیے کی وجہ سے دونوں نیوکلیئرپاورزہر وقت جنگ کے دھانے پرکھڑی رہتی ہیں۔اسی قضیے کی وجہ سے دونوں ممالک میں ترقی کی بہت سی راہیں مسدودہوچکی ہیں۔اسی تنازعے کی وجہ سے تعلیم صحت اورسماجی ترقی ان دو ممالک میں مفقودہے۔ دہائیوں اس قضیے میں الجھنے کے بعد بھی کسی ملک کے ہاتھ کچھ نہیں آیا۔دونوں ممالک میں دفاعی اخراجات اس متوقع جنگ کے نام پرہی بڑھائے جاتے ہیں۔اگر اس تنازعے کاپرامن حل ہوجائے تویہ نہ صرف اس خطے کیلئےبلکہ بین الا قوامی امن عامہ کیلئےنہایت سودمندہوگا۔اس سے خطے میں امن ہوگا،ترقی ہوگی اورسماجی بہبودپرخرچ کرنے کیلئےرقم بھی بچے گی۔غربت کے مارے ان دوممالک کواس حوالے سے ہرممکن کوشش کرناہوگی لیکن اس”حل میں کشمیریوں کی رائے کواہمیت دیناہوگی۔ایساحل جومزیداختلافات کا باعث بنے وہ ان ممالک کی سلامتی کومخدوش کردے گا۔حل ایساہوناچاہیے کہ جس سے دونوں ممالک کے علاوہ کشمیریوں کی بھی حق تلفی نہ ہو۔

کشمیرپربھارت کے حالیہ بہیمانہ اقدامات پرہرپاکستانی شہری کوغم ہے۔اس خاموشی پربھی غم ہے جوہماری طرف سے اختیار کی جارہی ہے۔سوال صرف اتناہے کہ اگریہی ہوناتھااوراسی حل کوہم نے راضی بہ رضاتسلیم کرلیناتھاتوپھراسے1948ءمیں ہی تسلیم کرلیناچاہیے تھا۔اگریہی ہونا تھاتواتنے برس پاکستانیوں کوکشمیرکی آزادی کی ترانے کیوں سنوائے تھے،کشمیرمیں ماتم کرتی ہوئی عورتوں کے مناظرکیوں دکھائے تھے۔جنازوں پرروتے ہوئے بزرگ کیوں دکھائے گئے۔نہتی بچیاں مسلح بھارتی فوجیوں پرپتھراؤکرتی کیوں دکھائی گئِیں،کشمیرکو پاکستان کی شہہ رگ کیوں کہا گیا۔کشمیرمیں ہونے والی جنگ آزادی کے حوالے سے ہمارے سینے کیوں گرمائے گئے۔یوم کشمیرکیوں اتنے جوش وخروش سے منایاگیا۔اب جب کئی نسلوں کی وابستگی اس سرزمیں کشمیرسے ہوگئی ہے توپھر1948 والے حل پرکیوں اکتفاکرلیاگیا۔یہ کام کئی دہائیوں پہلے کیوں نہیں کیا گیا ۔ میرے وطن کی کئی نسلیں تعلیم سے کیوں محروم رہیں،کیوں انہیں صحت کی سہولیات نہیں ملیں،کیوں یہ ملک ترقی نہ کر سکا؟

قومی اسمبلی میں کشمیرکے موضوع پردھواں دھاربحث ہوئی۔لیڈرآف دی اپوزیشن شہبازشریف نے نہایت درمندانہ لہجے میں تمام اختلافات بھلا کرکشمیرکے مسئلے پرحکومت کومکمل تعاون کایقین دلایا۔جواب میں وزیراعظم نےدبنگ لہجے میں کہاکہ “مجھے تعاون نہیں تجاویزچاہئیں۔ کیا آپ چاہتے ہیں ہم بھارت کے خلاف جنگی محاذکھول دیں؟”جنگ کاآغازکردیں؟اسمبلی کی اس کاروائی کودیکھ کربچوں کاوہ کھیل یادآگیاجس میں ایک بچے کی آنکھوں پرپٹی باندھ دی جاتی اوراسے دوسروں کو پکڑنے پرمامورکیاجاتاہے۔اس دفعہ المیہ یہ ہے کہ دونوں بچوں کی آنکھوں پرپٹی بندھی ہے اوردونوں نجانے کس کوپکڑنے کی کوشش کررہے ہیں،دونوں کے ہاتھ میں کچھ نہیں آرہا،دونوں ہی”پکڑلیا،پکڑلیا“کاشورمچارہے ہیں۔

اس لئے کہ اس فیصلے کومنسوخ یامنظورکرنے میں دونوں بے اختیارنہیں۔بدقسمتی تویہ ہے کہ جونہی حکومت سے اپوزیشن میں آتے ہیں توفوراًیہ راگ الاپاجاتاہے کہ یہ منصب کبھی بھی سول قیادت کونہیں سونپاگیا۔ووٹ سے منتخب لوگوں کوکبھی اس کااختیارنہیں دیاکہ وہ خارجہ پالیسی میں کوئی رائے دے سکیں۔ہم نے کب ہتھیارڈالنے ہیں،کب ہتھیاراٹھانے ہیں،کب کسی ملک کواپنے صوبہ بنانے کاخواب دیکھناہے،کب چین کے ساتھ یاری لگانی ہے،کب ایران کے ساتھ اختلاف پیداکرناہے،کب جہادکیلئےچندے کی صندوقچیوں کوملک کی ہردکان کے باہررکھناہے،کب اسی جہاد سے منکرہوجاناہے،کب بھارت کے وزیر اعظم کے ملک میں آنے کوغداری کہناہے اورکب مودی کومسلسل کالیں کرنے کوخارجہ پالیسی کہناہے۔

کب ایران سے تعلقات کے بارے میں بات کرنے کوفرقہ واریت کہناہے اورکب عمران خان کے ایران سے متعلق بیان پران کے قصیدے گانے ہیں۔ کب کسی وزیراعظم پرکشمیرکے بورڈہٹانے پرغداری کی تہمت لگانی ہے اورکب کشمیرپربھارتی تسلط پر خا موش رہناہے۔کب فلسطین کی آزادی کیلئےملک بھرسے ڈنڈابردارنوجوانوں کی ریلیاں نکالنی ہیں،کب یمن میں ہونے والے مظالم پرچپ سادھ لینی ہے۔کب امریکاکوصہیونی طاقت کہنا ہے اورکب ٹرمپ سے ملاقات کیلئےشہزادوں کی مدد حاصل کرنی ہے؟؟؟۔

کب مذہبی بنیادوں پرنکالے گئے جلوسوں میں موٹرسائیکلوں کونذرآتش کرناہے کب پرامن مظاہرے کرناہے۔کب کس کے حکم پراپنے ہی محب وطن افرادکوبین الاقوامی دہشتگردقراردیکرانہیں جیل کی ہوالگوانی ہے۔کب بھارت کے ساتھ تجارت کوملک دشمنی کہناہے کب تجارتی معاہدوں کیلئےتعلقات کی پینگیں بڑھاناہے اورکب عمران خان کے امریکامیں اسامہ بن لادن والے بیان پرچپ رہناہے۔کب فاطمہ جناح کوغدارکہناہے اورکب مادرملت کی یادمیں اعزازی ٹکٹ کااجراءکرناہے۔کب71ءکی جنگ کاملبہ مجیب الرحمن پرڈالناہے اورکب اسے بھٹوکی سازش کہناہے۔ کب بگڑتی معشیت کاسہراگذشتہ حکومتوں پرڈالناہے اور کب اسی ابترمعشت کو”نیاپاکستان“کہناہے۔کب مدرسوں پرچھاپے مارنے ہیں اورکب انہیں فنڈنگ مہیاکرنی ہے۔کب آپریشن ضرب عضب شروع کرناہے اورکب آپریشن ضرب قلم کاآغازکرناہے۔کب نوجوانوں کوبدراہ کہناہے اورکب انہیں انٹرنی بنا کر گالی گلوچ سکھاناہے۔؟؟؟

کب کس چینل کومحب وطن قراردیناہے اورکب کس چینل کوملک دشمن قراردیناہے۔کب صحافیوں کی تصویروں پرلال دائرے لگاکرانہیں اینٹی سٹیٹ قراردیناہے اورکب کس صحافی کوتمغہ حسن کارکردگی سے نوازناہے۔کب کس پرکفرکا فتویٰ لگناہے اورکب کسی درگاہ کی چوکھٹ پر سجدہ کرنا ہے اورکب کسی کے تعویذوں پرایمان لاناہے۔ کب کسی وزیر اعظم کوپھانسی پر لٹکاناہے کب کسی وزیراعظم کی کن پٹی پرپستول رکھ کرملک بدر کرنا ہے،کب کس منتخب وزیراعظم کے ہاتھ میں پکڑے جام والی تصویرکووائرل کرواناہے اورکب کسی ڈکٹیٹرکی کتوں کے ساتھ تصویرکھنچواکرفرنٹ پیج پرلگواکرماڈریشن کادرس دینا ہے،کب ماتھے پرجام رکھ کررقص کرنے والی تصویرکی نقاب کشائی کرناہے،کب ملکی ادارے کے سربراہ کی جام وسبوکی محفل میں بیہودہ رقص کوسوشل میڈیامیں وائرل کرناہے۔کب نیب کے ذریعے انتقام لیناہے اورکب اسی محکمے کے سربراہ کی ایک واہیات وڈیوسرعام لانی ہے۔کب اخباروں کے دفترجلانے ہیں،کب سارے ملک سے اخبارکی کاپیاں غائب کرنی ہیں اورکب انہیں اخباروں میں شہہ سرخیاں لگواکراپنے لئے رائے عامہ ہموارکرنی ہے۔؟؟؟

ادھراسلام آباد سیکیورٹی مذاکرات کی تقریب میں جنرل قمرجاوید باوجوہ کے مطابق انڈیااورپاکستان کے مستحکم تعلقات کو وہ چابی قراردیاجس سے مشرقی اور مغربی ایشیاکے مابین رابطے کویقینی بناتے ہوئے جنوبی اوروسطی ایشیاکی صلاحیتوں کوان لاک کیاجاسکتاہے کیونکہ تنازعہ کشمیرواضح طورپردو ایٹمی ہمسایہ ممالک کے مابین تنازعات کی وجہ سے یرغمال بناہواہے۔برصغیرمیں امن کاخواب اس وقت ادھورارہے گاجب تک مسئلہ کشمیرحل نہیں ہوجاتا۔اب وقت آگیاہے کہ ماضی کودفن کیاجائے اورآگے بڑھاجائے۔بامعنی مذاکرات سے قبل ہمارے پڑوسی ملک کو ماحول کوسازگاربنانا ہوگاخاص طورپرانڈیاکے زیرانتظام کشمیر میں۔پاکستان کی جانب سے حال ہی میں سرحد پرفائربندی کے معاہدہ کے بعد آرمی چیف کی انڈیاکو مذاکرات کی یہ مثبت پیشکش سامنے آئی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیامودی سرکارعملی طورپراس کامثبت جواب دینے کیلئے تیارہے؟پاکستان نے جب بھی امن کی پیشکش کی ہے توکبھی ممبئی حملہ امن کاراستہ روک کرکھڑاہوگیا،کبھی پٹھانکوٹ کاحملہ آڑے آگیا،کبھی انتخاب جیتنے کیلئے پلوامہ واقعہ میںایک بڑے دھماکے میں اپنے 40 اہلکاروں کی بلی کاسہارالیناپڑگیااورآخرکار26فروری کوبالاکوٹ کے ایک جنگل پررات کے اندھیرے میں بزدلی کامظاہرہ کرتے ہوئے میراج 2000فائٹر طیاروں سے فضائی حملہ کرکے منہ کی کھاناپڑی اوربرہمن کامایہ نازپائلٹ ابھینندن ورتھمان کی زندہ گرفتاری تاریخ میں برہمن سرکارکی ہمیشہ کی رسوائی اورکلنک کاٹیکہ بن گئی لیکن اس کے باوجودکیاوہ افغانستان سے جاری اپنی دہشتگردی کی کاروائیوں سے بازآیا؟

ہم نے تنازعہ کشمیرکے باوجودسمجھوتہ ایکسپریس،دوستی بس اوردوطرفہ تجارت کاآغازکیالیکن سمجھوتہ ایکسپریس میں18فروری 2007ءکو
کو ہریانہ کے شہرپانی پت کے دیوانی گاؤں کے نزدیک دوبوگیوں میں بم دہماکے میں68افرادکوزندہ جلاکرماردیاگیا جس میں اکثریت پاکستانیوں کی تھی اور خودبھارتی تفتیش کے بعدملزمان کاسراغ لگالیاگیاجس میں بھارتی ”را”اورفوج کاحاضر سروس کرنل پروہت سمیت ہندودھرم کی سادھوی پرگیہ ٹھاکر کے نام سامنے آئے لیکن سوچی سمجھی سازش کے تحت 20 مارچ2019میں بھارتی عدالت نے ان سب کوبری کر دیا ۔کیا پاکستانیوں کاخون اس قدرارزاں ہے کہ ہم ان کو آسانی سے بھول جائیں اورانڈیا عالمی فورمزپراپنے مضحکہ خیزدعوؤں میں برملا پاکستان کوموردِ الزام ٹھہراتارہے۔اپنے آقاؤں کی ایماء پرلداخ سے گلگت پرحملہ کرکے سی پیک روٹ کو کاٹنے کاخفیہ مکروہ پلان میں خوداس طرح لینے کے دینے پڑجائیں کہ خودان کے وزیردفاع راج ناتھ سنگھ کو پارلیمنٹ میں آکردہائی دینی پڑگئی کہ چین نے لداخ کے38ہزارمربع میل پرقبضہ کرلیاہے توان حالات میں اسے پاکستان کے ساتھ فائربندی یاد آجائے کہ اس طرح کی مجرمانہ غلطی ہم 1962میں کرچکے ہیں ،جب انڈیاچین کی جنگ میں کشمیرپرقبضہ کرناکچھ دشوار نہیں تھالیکن ہم امریکا بہادر کی یقین دہانی پرچپکے بیٹھے رہے اوریہ سنہری موقع کھوبیٹھے۔

آخریہ کیوں کہاجارہاہے کہ پاکستان نے انڈوپیسیفک اسٹریٹجی کوسنجیدگی سے نہیں لیا؟امریکاکاپیپرشائع بھی ہوگیالیکن اس پر کوئی کام نہیں کیاگیا، اس منصوبہ بندی میں نیپال،سری لنکا،بھوٹان اورانڈیاہیں،ہماراکوئی تذکرہ نہیں ہے جبکہ اس خطے میں سب سے زیادہ امریکابہادرکیلئے قربانیاں دینے والاپاکستان کسی بھی ذکرخیرسے محروم ہے۔کیااس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان چین کے کیمپ میں ہے اس لئے پاکستان کی خدمات کوسراہنے کی بجائے اس کومزیدسزادینے کیلئے اس کومتنبہ کیاجارہاہے۔

میرادل آج پھران جاں فروش مجاہدوں کی یادسے بھرآیاہے جب کرنل سہیل کاباپ اپنے چہرے پرمایوسی وبے بسی کےماتم کی بجائے بیٹے کی میّت کوبڑے فخرسے سلیوٹ کرکے فخرسے جھوم رہاتھا۔قبائلی پٹھان کیپٹن روح اللہ جس کے سرپردوماہ کے بعدسہرے کے پھول سجنے والے تھے ،لیکن اس ملک پراپنی زندگی نچھاورکرکے سرخ گلاب کے تازہ پھولوں میں وہ دلہا اس طرح مسکرارہاتھاکہ جنازے پرآنے والے باراتی کلمہ شہادت کے ساتھ ساتھ پاکستان زندہ بادکے فلک شگاف نعرے بلندکررہے تھے۔ نوجوان کیپٹن بلال شہیدکوکیسے فراموش کروں جس نے دشمن کے راکٹ لانچر کواپنے سینے پرروکا،بیٹے کی کٹی پھٹی لاش دیکھ کرماں کی آنکھوں میں آنسونہیں بلکہ اس کے ہونٹوں پرآنے والے اس تاریخی جملے کوساری دنیا نے سناکہ”بیٹے چاہے ہزار ہوتے قربان تواس دھرتی پرہی ہونے تھے”۔ماں باپ کے اکلوتے بیٹے لیفٹیننٹ ارسلان ستی جس کی ابھی مسیں بھی نہ بھیگی تھیں، کی شہادت پرآہیں سسکیاں بھرنے کی بجائے وطن کی محبت کاحق اداکرتے ہوئے ماں نےکہا”یہ توپیداہی وطن پرکٹنے کیلئے ہواتھا” ۔ میجر اسحاق شہیدکی لاش کو تین سال کی بیٹی جس معصومیت کے ساتھ اپنے باپ کو دیکھ رہی تھی کلیجہ پھٹ گیاتھا۔ یہ میجر اسحاق کی بیوی کا ہی حوصلہ تھاجس نے اپنی دنیااس دھرتی پرلٹادی۔شہیدسیکنڈلیفٹیننٹ عبدالمعیدکے گھران کے اہلخانہ سے فوج کے سربراہ تعزیت کیلئے جب پہنچے تواکلوتے بیٹے کے باپ نے کس جوانمردی سے مبارکبادوصول کی،اس کوساری دنیانے ٹی وی پردیکھا۔

ان عظیم خاندانوں کی کہانیاں ہیں جن کے لال اس دھرتی پر قربان ہوئے،جن کے لہومیں وفاشامل ہے۔جنہوں نے کبھی قوم سے شکایتیں نہیں کیں کہ ہمارے ہی بیٹوں کی قربانی کیوں لی گئی۔یہ توصرف چندمثالیں ہیں،آپ پندرہ ہزارشہدا کے گھروالوں کو دیکھ لیں کبھی کسی نے ملک و قوم سے شکوہ نہیں کیا۔کبھی کسی نے پاکستان دشمنوں کے حق میں بیان نہیں دیے۔آپ ان پندرہ ہزارگھرانوں میں سے کسی بھی گھرچلیں جائیں، ہر گھرکے بڑے یہی کہیں گے کہ ہماراسب کچھ اس وطن کیلئے حاضرہے،توپھر کیامیں یہ سمجھوں کہ سب ہائبرڈوارکاکیادھراہے جوایسے بے مثال ورثہ کے امین ہوکران افرادکے الزامات کی تیروں کی بارش کی زدمیں ہیں جن کواس ملک نے دنیاکے امیرترین افرادکی فہرست میں لاکھڑاکیا۔اب کیایہ سمجھ لیاجائے کہ سیاسی لیڈروں کی وہ حیثیت ہے جیسے دوبچے آنکھوں پرپٹی باندھے ایک دوسرے کوپکڑرہے ہیں ،نہ کسی کوکچھ دکھائی اورسجھائی دے رہاہے،نہ کسی کے پاس کوئی اختیارہے نہ کسی کی کوئی بساط ہے یاپھرسیاسی لیڈراپنی شعلہ بیانی اورالزامات کی بارش کی چھتری کے نیچے کھال بچانے کیلئے اپنے گندے کپڑے کسی اورکی لانڈری میں دھونے کاتاثردیکرقوم کو دھوکہ دے رہے ہیں۔

اب ایک طرف شہیدوں کے خاندان ہیں جواپنے پیارے گنواکربھی پاکستان سے عہدوفابرقراررکھے ہوئے ہیں اوردوسری طرف وہ ہیں جواقتدار چھین جانے پروطن دشمنی پرتل گئے ہیں۔یقیناًہمارے شہداکالہوملک کے سب سے بڑے منصب سے بھی ارفع ہے اورہمیں اب کچھ ایساعملی طورپر کرکے ثابت کرناہوگاجونہ صرف الزامات کوتنکوں کی طرح بہالیجائے بلکہ ملک دشمن افرادکویہ پیغام بھی مل جائے کہ ریاستیں بے غیرتی کی غداری سے نہیں،بہادرشیروں کے لہوسے محفوظ رہتی ہیں۔آخراس کافیصلہ ہم کب کریں گے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں