” بڑھتی ہوئی مہنگائی “

مہنگائی نے کیا برا حال ہے
اس لیے تو جینا محال ہے

آج کل مہنگائی روز بڑھتی جا رہی ہے۔ڈالر کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہے۔چکن 475 روپے کلو مل رہا ہے۔پیٹرول کی قیمتوں میں بھی آئے دن اضافہ ہوتا ہے۔
کھانے پینے کی اشیاء سے لے کر پہنے اوڑھنے کی قیمتوں میں اس قدر اضافہ ہو گیا ہے کہ امیروں کی بھی چینخے نکل گئی ہے۔مڈل کلاس طبقہ بھی بڑی مشکلوں سے صرف انتہائی ضروریات زندگی کی اشیاء لے پا رہا ہے غریب تو پھر دور کی بات ہے۔غریب طبقہ تو بھوک کی وجہ سے اپنی جان سے ہاتھ دھو رہا ہے۔

کچھ بھی ہم بازار لینے چلے جائیں تو چیزوں کی قیمت سن کر ہی ہم خالی ہاتھ لوٹ آتے ہیں کیونکہ ہماری جیب اجازت نہیں دیتی۔سبزیاں تو سبزیاں مہنگی، پھلوں کی قیمتیں بھی بہت بڑھ چکی ہیں،ڈرائے فروٹ کی قیمتیں تو آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔دودھ کی قیمت میں اضافہ، اناج کی قیمتوں میں اضافہ، ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں اضافہ یعنی ہر چیز کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں۔
انسان تو آج کل کچھ اچھا تو دور سادہ کھانا کھانے کے لائق نہیں رہا۔غریب کے لیے یہ وقت بہت برا چل رہا اس بچارے کی پریشانیوں میں دن با دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کوئی ضرورت کا سردی سے بچنے کے لیے سردی کے کپڑوں کی خریداری کرنے جائیں تو ان کی قیمتیں سن کر خالی ہاتھ ہی گھر لوٹنا پڑتا ہے۔اس شدید سردی میں لوگ ٹھنڈ سے بیمار ہو رہے ہیں۔
والدین اتنے پریشان ہیں کہ اپنے بچوں کو ٹھنڈ سے بچانے کے لیے انڈے نہیں دے پا رہے مہنگائی کی وجہ سے، الیکٹرک ہیٹر نہیں چلا سکتے بجلی کا بل بہت زیادہ آ جاتا ہے، گیس پر ہیٹر چلا نہیں سکتے کے گیس سردیوں میں میسر نہیں ہوتی۔
بجلی کے بل کی قیمتوں میں بھی اتنا اضافہ ہو گیا ہے کہ بل دینے والے کو بجلی کا بل پڑھتے ہی ہارٹ اٹیک آ جاتا ہے اور وہ سکتے میں چلا جاتا ہے۔

غریب کی تو کمر مہنگائی سے ٹوٹ گئی ہے۔وہ بیچارے تو بجلی کا بل ادا نہیں کر سکتے اور ان کی بجلی کٹ جاتی ہے جیسے وہ بحال بھی نہیں کروا سکتے۔
ملک کا نظام مہنگائی کی وجہ سے بڑی تیزی سے خراب ہوتا جا رہا جا رہا ہے۔ملک میں ہر چیز کا نظام درھم برہم ہو کر رہ گیا ہے۔
آج کل لوگ نوکریوں سے لوگ محروم ہیں۔اول تو لوگوں کو نوکریاں نہیں مل رہی اور جو لوگ نوکریوں پر لگے ہوئے ہیں ان کو بھی ملک کی مالی و معاشی تنگ دستی کی وجہ سے نوکریوں سے نکالا جا رہا ہے۔بندہ اب ایسے میں کرے تو کرے کیا۔ا
ڈاکٹروں کی فیسوں میں اور ادویات کی قیمتوں میں بڑی تیزی سے اضافہ ہو گیا ہے کہ لوگ اپنے پیاروں کو ادویات نہیں دے پاتے اور اپنے پیاروں کی موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔یہ غم ان کے لیے اتنا بڑا غم ہوتا ہے کہ وہ خود کو کبھی نہیں معاف کر پاتے کیونکہ وہ اپنے پیاروں کی بیمار لوگوں کی مہنگائی کی وجہ سے جان نہیں بچا پاتے۔
سونے کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔اس باپ کا کیا قصور جس کی زمین بھی جاتی ہے بیٹی بھی۔ آج کے دور میں والدین قرض اٹھا کر بیٹیوں کی شادی کرتے ہیں۔سونے سے محروم بیٹیوں کو والدین آرٹیفیشل جیولری میں رخصت کرنے پر مجبور ہیں۔دلہن کو تیار بھی اتنے پیسوں میں کیا جاتا ہے میک کی بھی بہت مہنگا ہو چکا ہے۔لڑکیاں تو اب میک اپ کرنے سے بھی گئیں۔

ہائے ہائے مہنگائی
عوام دے دہائی

حکومت کا کمال ہے
عوام کا جو زوال ہے

عشق نے کیا عاشق کو برباد
مہنگائی نے کیا انسان کو برباد

نہ کہنے ہو کچھ ہے
نہ ہے کھانے کو کچھ

بجلی کے بلوں نے لی سربراہ کی جان
ڈاکٹر کی فیس نے لی مریض کی جان

زندگی میں جینا وبال ہے
حکومت کا جو کمال ہے

کھانے کو خریدنے لگو کچھ
تو سونے کی طرح ہر چیز مہنگی

دلہن بننا کونسا آسان ہے
پیسے کا جو فقدان ہے

عشق عشق نہ کر اے ! بندیا
مہنگائی سے نجات نجات کر

اس مہنگائی نے غریب کی کمر توڑ کے رکھ دی
اور امیروں کی چینخیں  نکلوا  دی  ہیں

کالم نگار کی رائےسے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-