” آج کی آواز”

آخر کون ہے آج کی آواز ؟ آخر کون لوگ شامل ہیں اس آواز کے حصے میں ؟ اور کس طرح کی آواز ہے یہ؟ سوال بہت ہیں پر ان کا جواب دینے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں ۔ سوال کرنے والے لاکھوں چہرے اور آوازیں ہیں پر اُن کا جواب کون دے گا؟ کون ہے جو بنے کا آج کی آواز ؟ کون دے گا ہر سوال کا جواب؟ اس سب میں ایک ہی کردار ہے جو دے گی آپ کے ہر سوال کا جواب اور وہ ہے آج کی یوتھ (Youth) – بالکل صحیح پڑھا آپ نے – آج کی یوتھ ہی آج کی آواز ہے۔ آج کی۔ یوتھ کے پاس ہی ہر سوال کا جواب ہے ۔ کہنے کو تو ہم سب مسلمان اور پاکستانی ہیں پر سوچیے کہ کیا حق ادا کیا ہم نے مسلمان اور پاکستانی ہونے کا؟ کیا کیا نے پاکستان کیلئے ؟

سوال تو سب اُٹھاتے ہیں پر اب سوال اُٹھانے کی نہیں، آواز کی باری ہے۔ اب حق پر بات کرنے کی نہیں، حق کیلئے قدم اُٹھانے کی باری ہے۔ جی ہاں ! اب اس خاموشی کو توڑنا ہوگا۔ مہنگائی کا ، نا انصافی کا رونا دھونا چھوڑنا ہوگا اور اس سب کے خلاف آواز اور قدم اُٹھانا ہوگا۔ آج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی قیمت۔ بجائے اس کے کہ ان قیمتوں کے بڑھنے سے اپنی گاڑیوں کی ٹنکی فل کروائی جائے بلکہ اس کے خلاف آوازاٹھائی جائے اور جب ایک بار ساری یوتھ مل کر اس کے خلاف آواز اُٹھائے اور قدم اُٹھائے کہ کوئی قیمت پر پیٹرول حاصل نہیں کرے گا تو ایک دن میں سب قیمتیں زمین پر آجائیں گی۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ مسئلوں پر بات تو سب کرتے ہیں اور رائے بھی سب ہی دینے ہیں پر عمل اور قدم اٹھانے کے وقت کوئی سے چند لوگ ہی آگے آتے ہیں۔ اگر واقعی تبدیلی چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اپنے اندر تبدیلی لے کر آئیں۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

قرآن پاک کی آیت ہے:

اِنَّ اللّٰہَ لایُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوا مَا بِأنفُسِہِمْ وإذَا أرَادَ اللّٰہُ بَقَوْمٍ سوئًا فَلاَ مردَّ لَہٗ ومَالَہُمْ مِنْ دُوْنہٖ مِن وَال (رعد:۱۱)

ترجمہ: بیشک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا؛ جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب اللہ کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا اور اللہ کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مددگار نہیں ہوسکتا۔

اگر واقعی چاہتے ہیں کہ سب ٹھیک ہو تو پہلے ہمیں ٹھیک ہونا ہوگا۔ ہم سب کو متحدد ہونا ہوگا۔ اس یوتھ کو دوسرا کلچر چھوڑ کر اپنے کلچر کو اپنانا ہوگا اور متحدد ہو کر کام کرنا ہوگا۔ تب ہی جاکر ہر جگہ گونجے گی آج کی آواز اور پھر ہی آئے گی تبدیلی۔خود کو بدلوں گے تو ہی جہاں بدلے گا۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-