پاکستان میں جمہوری اقدار

75 سال قبل معرض وجود میں آنے کے باوجود پاکستان آج بھی ایک مستند اور حقیقی جمہوریت کے لیے کوشاں ہے۔ پاکستان کمزور سیاسی جماعتوں سے لے کر غیر مستحکم اداروں تک اور سیاسی شعور کی کمی ان سب کا احاطہ کرتا ہے۔ پاکستان کی جمہوریت کے امکانات کا تجزیہ کرنے کے لیے پاکستانی سیاسی تاریخ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔پاکستان کے قیام کے بعد ایک دستور ساز اسمبلی کا قیام عمل میں آیا۔ اس اسمبلی کے ذمہ دو بنیادی کام سونپے گے تھے آئین بنانا اور پارلیمانی نظام کے تحت مقننہ کے طور پر خدمات انجام دینا۔ ان اہم ذمہ داریوں سے قطع نظر اسمبلی بری طرح ناکام رہی۔ سب سے پہلے آئین سازی میں غیر معمولی تاخیر ہوئی۔ مطلب ریاست کے کاموں اور اختیارات کی تقسیم کے لیے قانونی معیارات واضح طور پر متعین نہیں کیے گئے تھے، جس کی وجہ سے سیاسی بے چینی پیدا ہوئی۔اس کے علاوہ دستور ساز اسمبلی کے ارکان کے انتخاب کے لیے عام انتخابات سے بچنے کا مطلب یہ تھا کہ یہ پاکستانی آبادی کی غیر نمائندہ تھی۔ جو غیر جمہوری عمل کی نشاندہی کرتا ہے۔

اسمبلی نے قانون سازی کے کام میں لیت و لعل سے کام لیا اور وہ اقتدار کے ثمرات کا مزہ لینے میں مصروف تھے۔ درحقیقت 28 میں سے 16 وزراء سفیر، گورنر یا گورنر جنرل بنے۔ اس طرح شروع ہی سے پاکستانی جمہوریت ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھی، جس نے ایک کمزور جمہوری نظام کی بنیاد ڈالی۔ایک سیاسی جماعت کے طور پر مسلم لیگ پاکستان کی شمع جمہوریت کے قیام میں کافی اہمیت رکھتی ہے۔ 1936 تک مسلم لیگ ایک غیر مستحکم تنظیم تھی۔ تاہم قائداعظم محمد علی جناح نے اسے ایک تناظر اور ایک نیا معنی دیا ہندوستان میں سب سے زیادہ بااثر مسلم پارٹی بننے کے لیے اس کی افزائش کی چونکہ مسلم لیگ کا بنیادی مقصد ایک آزاد وطن کی جنگ لڑنا تھا، اس لیے قائداعظم کے پاس اپنی پارٹی کے ارکان کی سیاسی تربیت کے لیے وقت بہت کم تھا۔ اس طرح افراد کے پاس پارلیمانی طرز حکومت چلانے کے حوالے سے ناکافی تجربہ تھا۔ اس کے باوجود قائد اعظم محمد علی جناح پہلے گورنر جنرل بن کر پاکستان کی سیاسی بدامنی کو کنٹرول اور منظم کرنے میں کامیاب رہے۔ انہوں نے ریاستی امور چلانے میں فعال کردار ادا کیا اور ساتھ ہی کابینہ کی صدارت بھی کی۔ تاہم ان کی موت کے بعد، مسلم لیگ کے سیاسی طور پر ناخواندہ اراکین پاکستان میں ایک مستحکم جمہوری حکومت قائم کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ پارٹی ٹکڑوں میں بٹ گئی اور سیاسی سرگرمیوں کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ نتیجتاً آزادی صحافت، صحت مند مسابقت وغیرہ نہیں تھی اور سیاسی اشرافیہ نے خود کو ووٹرز سے الگ تھلگ کر لیا، جس کے نتیجے میں جمہوریت زوال پذیر ہوئی۔مزید یہ کہ پاکستانی حکومت میں جمہوری روایات کا فقدان ہے جس کے وجہ سے جمہوری ڈھانچہ کمزور ہے۔

قائد اعظم نے پاکستان کا گورنر جنرل مقرر ہونے پر مسلم لیگ کے صدر کے عہدے سے سبکدوش ہو کر ایک جمہوری مثال قائم کی۔ وہ کسی پارٹی سے وابستہ نہیں ہونا چاہتے تھے کیونکہ ان کی ذمہ داری پوری قوم کے مفادات کو دیکھنا تھا۔ اس طرح مسلم لیگ سرکاری مداخلت کے بغیر سیاسی سرگرمیاں جاری رکھ سکتی تھی اور پارلیمانی پارٹی اور وزراء کی سرگرمیوں پر نظر رکھ سکتی تھی۔ اس کے بعد آنے والے لیڈران نے اس طرز عمل میں رعایت کی، جس کے نتیجے میں مسلم لیگ کمزور ہوئی اور اسے حکومت کی نوکرانی بنا دیا۔ مسلم لیگ کی کمزوری نے اس وقت کے گورنر جنرلز کو ملک کے باہر سے لیڈر درآمد کرنے کی ترغیب دی جو اس وقت پارٹی پر مسلط کر دیے گئے۔ مثال کے طور پر، امریکہ میں پاکستان کے سفیر جن کا نام محمد علی بوگرا ہے کو غلام محمد نے وزیر اعظم مقرر کیا، اور پھر مسلم لیگ کے رہنما کے طور پر منتخب ہوئے۔ یہ مکمل طور پر جمہوریت کی روح کے خلاف تھا۔ جیسا کہ جمہوریت میں اکثریتی پارٹی کا لیڈر انتخابات میں حصہ لیتا ہے۔ایک اور اہم نکتہ قابل غور ہے کہ بیوروکریٹس جن کے پاس جمہوری اصولوں کی کوئی قدر نہیں تھی کو سیاست دان بنایا جا رہا تھا ایک بہترین مثال غلام محمد ہیں جنہوں نے خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرنے کے لیے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور 1954 میں آئین ساز اسمبلی کو تحلیل کر دیا۔ اس طرح کی سرگرمیوں نے پاکستان کے جمہوری ڈھانچے کو مزید تباہ کر دیا۔ مزید یہ کہ پاکستان کی سیاست میں فوجی مداخلتوں نے بھی جمہوری نظام کو مزید تباہ کر دیا۔ پاکستان کو 1958، 1977 اور 1999 میں فوجی بغاوتوں کا سامنا کرنا پڑا، جس نے اس کے جمہوری اداروں کو کمزور کیا، اور ملک کی آئینی اور قانونی پیش رفت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ جیسا کہ فوجی حکومتوں میں اظہار رائے کی آزادی، سیاسی جماعتوں کی تشکیل، صحت مند مقابلہ اور پریس کی آزادی نہیں ہے۔ یہ سب جمہوریت کے بنیادی عوامل ہیں۔

اس کے نتیجے میں پاکستانی معاشرے میں جمہوری اقدار ختم ہوگئیں، اور موجودہ حکومتی نظام میں سیاست و جمہوریت کا فقدان ہے۔پاکستان کے ٹریک ریکارڈ کو دیکھتے ہوئے، آج تک پاکستان کی سیاست میں انمول اصول ” نظریہ ضرورت ” ہے۔ یہ وہ بہانہ نہیں ہے جسے صرف اسٹیبلشمنٹ پاکستان پر حکومت کرنے کے لیے استعمال کرتی ہے بلکہ بہت سے سیاست دانوں کے لیے ان کی ’’ہارس ٹریڈنگ‘‘ میں رہنما اصول بھی ہے۔

بدقسمتی کی بات ہے کہ پاکستانی عوام تاریخی طور پر اس بات سے لاتعلق رہی ہے کہ ان پر کون حکومت کرتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ پاکستان پر حکومت کرنے والی ہر جماعت کی جانب سے معاشرتی شعبے میں ترقی کا فقدان ہے، چاہے وہ فوجی ہو یا سویلین غریب عوام اپنے خاندان کے لیے خوراک اور رہائش حاصل کرنے کی جدوجہد میں پھنسے ہوئے ہیں اور انہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ وہ آمریت کے تحت زندگی گزار رہے ہیں یا جمہوریت کے۔

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-