جدوجہدِ آزادی کشمیر

اس میں کچھ شک نہیں کہ کشمیر پاکستان کے جسم کا ایک ایسا دکھتا ہوا حصہ ہے جس کی تکلیف پورا پاکستان گزشتہ ٧۴ سال سے سہہ رہا ہے ،رہا یہ سوال کہ ایسا کیوں ہے کہ ہر پاکستانی اپنے کشمیری بھائ کی تکلیف اپنی تکلیف کی طرح محسوس کرتا ہے ? تواسکا جواب پاکستان میں موجود ہر مسلمان پاکستانی باخوبی دے سکتاہے، ایسا اس لیے کہ کشمیری مظلوم بھائ ہمارے مسلمان بھائ ہیں اور ارشادِ ربانی ہے کہ “مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائ بھائ ہیں ” ۔ حضور پاکؐ نے فرمایا کہ “تم مومنوں کو آپس میں ایکدوسرے کے ساتھ رحمت و محبت کا معاملہ کرنے اور ایکدوسرے کے ساتھ لطف و نرم خوئی میں ایک جسم جیسا پاو گے کہ جب جسم کا کوئ بھی حصہ تکلیف میں ہوتا ہے تو سارا جسم اس طرح تکلیف میں ہوتا ہے کہ نیند اڑ جاتی ہے اور جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے “. بیشک مسلمان دنیا کے کسی خطہ زمین میں آباد ہوں وہ امتِ اسلامیہ کا ایک جز ہے لہذا اگر کوئ بھی مسلم ریاست مصیبت یا ظلم کا شکار ہو گی تو اس کی تکلیف سے پوری امتِ اسلامیہ بے چین اور تکلیف میں مبتلا ہو گی ۔

مظلوم کشمیری ہوں یا فلسطینی مسلمان ،شام ہو یا برما کے مظلوم مسلمان جہاں بھی مسلم ریاست پہ ظلم و ستم ہو گا پاکستان کا ہر فرد اس ریاست کے لیے درد و تکلیف میں مبتلا رہے گا ۔ کشمیری قوم کی اصل بدنصیبی کا آغاز تب سے ہوا جب فرنگی حکمرانوں نے گلاب سنگھ ڈوگر راجہ کو کشمیر صرف ٧۵ لاکھ نک شاہی سکوں کے عوض بیچ دیا ۔ اس سکھ راجہ نے عرصے تک مظلوم نہتے کشمیریوں پہ ظلم ستم کا بازار گرم رکھا ۔برصغیر میں رہنے والا ہر حساس دل رکھنے والا فرد اس وقت کے کشمیر کی اس تکلیف دہ صورتِ حال کو صورتِ حال کو شدت سے محسوس کرتا ۔ مفکرِ پاکستان ،شاعرِ مشرق علامہ اقبال بھی کشمیر سے بیحد محبت رکھتے تھے اور کشمیری مسلمانوں کی حالتِ زار پہ ان کا دل بیحد دکھتا تھا ۔انہیں کشمیر سے جدی ،جزباتی اور روحانی لگاو تھا جس کا اظہار ان کی شاعری میں جگہ جگہ ملتا ہے

پنجہ ظلم و جہالت نے برا حال کیا
بن کے مقروض ہمیں بے پر و بال کیا
توڑ اس دستِ جفا کیش کو یارب
جس نے روحِ آزادی کشمیر کو پامال کیا

علامہ اقبال نے کشمیر کے مسلمانوں کو متحد اور کشمیر کا مستقبل تابناک بنانے کے لیے بہت کوششیں کیں اور ١٩٣١ میں “آل انڈیا کشمیر کمیٹی ” جو کہ کشمیری مسلمانوں نے بنائ تھی ، اس میں شامل ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد کمیٹی کے ممبران نے علامہ اقبال کو اس کمیٹی کا سیکریٹری جرنل بنا دیا ۔ حکیم الامت علامہ اقبال کشمیر کی حالتِ زار دیکھ کر بہت دکھی ہوتے ۔ اگر زندگی ان سے وفا کرتی تو یقیناً وہ کشمیر کے لیے بہت کچھ کر جاتے ۔ سکھ راجہ نے نہرو کے ساتھ معاہدہ کر کے کشمیر کا الحاق انڈیا سے کرنے کا اعلان کر دیا ۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مسئلہ کشمیر کا بانی پنڈت جوہر لال نہروتھا ۔ جس نے ایک کشمیری ہونے کے باوجود کشمیریوں کو آگ و خون کے سمندر میں دھکیل دیا ۔ اس نے سکھ راجہ سے گٹھ جوڑ کر کے کشمیر کا الحاق انڈیا سے کرنے کا اعلان کر دیا یہ جاننے کے باوجود کہ کشمیر کی ٩۵ فیصد آبادی مسلمان ہے اور وہ پاکستان سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں ۔ نہروکا حکم ملتے ہی انڈیا نے اپنی افواج کشمیر میں اتار دیں اور ظلم و ستم اور بربریت کا آغاز کر دیا ۔ کشمیری قوم اس ناانصافی پہ بلبلا اٹھی اور انہوں نے اپنے مسلمان پاکستانی بھائیوں سے مدد کی درخواست کی ۔ پاکستان نے مظلوم کشمریوں کی آواز پہ لبیک کہا اور یوں پاکستان کے بعد ١٩۴٧میں ہی پہلی جنگ شروع ہو گئ .. جب انڈیا نے دیکھا کہ اسے جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہو رہی تو اس نےگھبرا کر اقوامِ متحد کا دروازہ کھٹکٹایا اور ٢١ اپریل ١٩۴٧ کو اقوام متحدہ نے ایک معاہدہ دونوں ممالک کے مابین کراتے ہوئے انڈیا کو پابند کیا کہ وہ کشمیر میں شفاف استصوابِ رائے کروائے ۔ جس میں انڈیا بری طرح ناکام رہا ہے ۔انڈیا اب تک مختلف حیلے بہانے تراش کر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے ۔ اب تک کشمیر کے مسئلے کو لے کر انڈیا سے پاکستان کی تین جنگیں ہو چکی ہیں جو بالترتیب ١٩۴٧ ,١٩٦۵ اور ١٩٩٩ میں ہوئیں مگر افسوس کہ یہ جنگیں فیصلہ کن ثابت نہ ہو سکیں ۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر دونوں ممالک کے لیے انا اور بقا کا مسئلہ بن کر رہ گیا ہے ۔ بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے اور پاکستان کا کہنا کہ وہ کشمیر کے حقِ خود ارادیت کے حق میں ہیں ۔ استصوابِ رائے کے تحت جو فیصلہ کیا جائے گا وہ پاکستان کو قبول ہو گا ۔ بھارت اس حق کو ماننے کو اب تک تیار نہیں کیونکہ اسے علم ہے کہ کشمیریوں کا فیصلہ پاکستان کے حق میں ہی ہونا ہے ۔ کشمیری عوام استصوابِ رائے کروانے کے لیے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے گزشتہ ٧۴سال سے سیاسی اور عسکری دونوں محاذوں میں بھارت سے مردانہ وار لڑ رہے ہیں ۔

اس جہاد میں اب تک لاکھوں جوان ،عورتوں اور بچوں نے جام شہادت نوش کیا ہے ۔ عہدِ جدید میں فسطینی اور کشمیری خواتین نے ایثار و قربانی کی وہ مثالیں قائم کی ہیں جن کی مثالیں ملنا مشکل ہیں ۔ کشمیری مردوں کے ساتھ ساتھ کشمیری خواتین کمالِ جوش و خروش سے ایک ساتھ کئ محاذوں میں دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہیں ۔ کشمیری مائیں اپنے جواں سال بیٹوں کو میدانِ جنگ میں اتارنے پر آمادہ ہیں اور اتار رہی ہیں ۔ شنگرامہ کے ایک ٢٧سالہ مجاہد محمد امین کی ماں نے اپنے شہید بیٹے کی میت کو بڑے حوصلے سے ناصرف غسل دیا بلکہ وہاں موجود بین کرتی خواتین کو کہا کہ” تم بین نہ کرو میرا بیٹا شہید ہوا ہے اور شہید مرتا نہیں لہذا تم قرآنی آیات کا ورد کرو ۔” اسی طرح پٹن کی آمنہ بیگم نے اپنے دونوں بیٹوں کو میدانِ جنگ میں اتارا اور دو شہیدوں کی ماں کہلائ ۔ ڈوڈہ کی فاطمہ کو کون کشمیری بھلا سکتا ہے جو اسلحہ مجاہدین تک پہنچاتی تھی ۔ اس نے مجاہدینِ کشمیر کے حق میں ١۴ اگست ١٩٩٦ کو بھارتی فوجیوں کے ٹھکانوں پہ دستی بموں سے حملے کئے اور بھارتیوں افواج کے ناک میں دم کر دیا ۔ ڈوڈہ کی ایک اور سولہ سالہ رابعہ کی کہانی کشمیر میں گھر گھر سنائ جاتی ہے جس نے سیکڑوں بھارتی فوجیوں کے گھیرے میں ہونے کے باوجود اپنے تینوں بھائیوں ایاز اللہ ،اعجاز اللہ اور فرمان اللہ کے ساتھ انڈین فوج سے مقابلہ کیا اور درجنوں بھارتی فوجیوں کو ہلاک کرنے کے بعد اپنے تینوں بھائیوں کے ساتھ جامِ شہادت نوش کیا ۔ سیاسی محاذ پر جماعتِ اسلامی کی ” بنات الاسلام “اور آسیہ انداربی کی قربانیوں کو تاریخ کیسے فراموش کر سکتی ہے ۔ آسیہ اندرابی نے کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی کوششوں کی وجہ سے عالمگیر شہرت حاصل کی ۔ کشمیری باندی پور کی عزی کو کیسے بھول سکتے ہیں جس کے چھ سالہ بچے کو انڈین آرمی نے اتنا تشدد کا نشانہ بنایا کہ وہ قریب المرگ ہو گیا مگر اس اللہ کی بندی نے مجاہدین کے اسلحہ کا ٹھکانہ نہ بتایا اور باحفاظت اسلحہ مجاہدین تک پہنچا دیا ۔ یہ چند مثالیں ہیں ایسی ہزاروں مثالوں سے کشمیری تاریخ بھری پڑی ہے ۔

کشمیری قیامِ پاکستان سے اب تک بھارتی فوجیوں کے ظلم و ستم کے شکار بنے ہوئے ہیں ۔ روز کشمیری اخبارات لاشوں ،حراستی قتل و غارت ،تباہی اجتماعی قبروں ،عصمت دری کا شکار خواتین اور عقوبت خانوں کی تفصیل جیسی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ کشمیری مجاہدین اپنے سے ہزار گناہ طاقت ور فوج سے جہاد میں مصروف ہیں اور اپنے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ ایک کشمیری کمانڈر مجاہد مقبول بھٹ کشمیری آزادی کی تحریک “تحریکِ جموں کشمیر فیڈریشن فرنٹ ” کے بانی تھا ،جس نے ناصرف کشمیریوں کو متحد کیا بلکہ ان کی عسکری تربیت بھی کی ۔ اس کی بہادری سے خائف ہندوستانی حکومت نے پہلے تو حملے کر کے اسے شہید کرنے کی کوشش کی جب انڈین افواج اس میں ناکام ہوئیں تو ایک بھارتی فوجی افسر کے جھوٹے قتل کے الزام پہ مقبول بھٹ کو گرفتار کر لیا اور چند دن کے بعد ١١ فروری ١٩٧۴ تہار جیل دہلی میں پھانسی دے کر شہید کر دیا ۔ کشمیریوں کے لیے یہ دن یوم سیاہ تھا ۔ اس دن سے اب تک کشمیری فروری کے مہینے میں بھارتی حکومت کے خلاف کشمیر بھر میں مظاہرے کرتے ہیں اور حکومتِ پاکستان بھی ۵ فروری کو اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ اظہاریکجہتی مناتی ہے ۔ ٢٠١٦میں ایک نوجوان علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کو بھارتی فوجیوں نے تہار جیل میں شہید کر دیا ۔ اس کے بعد سے کشمیر میں کشیدگی میں بے انتہاءاضافہ ہو گیا ۔ کشمیری مجاہدین کا کہنا ہے کہ ” کشمیری عوام کی قربانیوں کی بدولت آزادی کی چنگاری نے شعلے کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ صبحِ آزادی طلوع ہونے تک اب یہ شعلہ بھڑکتا ہی رہے گا ” .

کشمیری اس وقت تک لڑتے رہیں گے جب تک کہ انہیں اپنا حق اور آزادی نصیب نہیں ہوتی ۔ آج بھارت کی ساڑھے آٹھ لاکھ افواج تحریک حریت کی آگ کو بجھانے میں بری طرح ناکام ہوئ ہے ۔ کسی بھی ملک کا دفاع دیدہ و نادیدہ قوتوں پہ منحصر ہے ۔ بھارتی افواج کے پاس دیدہ قوت ہے مگر وہ نادیدہ قوت جس سے وہ محروم ہے ہرگز نہیں ہو سکتی کیونکہ وہ نادیدہ قوت جزبہ ء ایمانی ہے ۔ جس کی بدولت کشمیری مجاہدین تعداد میں انتہائ کم ہونے کے باوجود اپنے سے کئ گناہ طاقتور فوج سے اب تک لڑ رہے ہیں ۔ہم سب پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں کے لیے سدا دعا گو رہیں گے کہ اللہ مظلوم کشمیریوں کو غاصبانہ تسلط سے آزادی نصیب فرمائے ۔ آمین ۔
جس خاک کے خمیر میں ہے آتشِ چنار
ممکن نہیں کہ سرد ہو وہ خاکِ ارجمند 
علامہ اقبال

کالم نگار کی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں-