حکومت کی جانب سے بحیرہ احمر میں پھنسے پاکستانی ملّاحوں کیلئے امداد پہنچ گئی، ملّاحوں کا جہاز چھوڑنے سے انکار، بڑا مطالبہ کر دیا 

لندن(آن لائن )بحیرہ احمر میں ایک ناکارہ بحری جہاز پر پھنسے چھ پاکستانی ملاّحوں کو پاکستانی حکومت کی جانب سے امدادی سامان پہنچا دیا گیا ہے تاہم ملّاحوں کا کہنا ہے کہ اْن کی آٹھ ماہ کی تنخواہ واجب الادا ہے لہٰذا وہ فی الوقت جہاز نہیں چھوڑ سکتے۔برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق  اس کے علاوہ جہاز کو چھوڑ دینے سے ممکنہ طور پر ملّاحوں کے لیےقانونی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی  وزارتِ بحری اْمور نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بتایا ہے کہ وفاقی وزیر علی زیدی نے پاکستان کی سرکاری جہاز راں

کمپنی پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن (پی این ایس سے) کے ایک آئل ٹینکر کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنا راستہ تبدیل کر کے ملّاحوں کو 30 دن کا راشن، پانی اور طبی سامان فراہم کرے۔ یاد رہے کہ سعودی بحری حدود میں جدّہ کے ساحل کے پاس مہر نامی اس ٹگ بوٹ میں چھ پاکستانی ملّاح تقریباً 17 دن سے پھنسے ہوئے ہیں۔وزارت کے مطابق اس جہاز کے کپتان نے بتایا کہ جہاز کے مالک نے انھیں دو دن کے اندر ریسکیو کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے چنانچہ ملّاحوں نے جہاز پر ہی رکنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پھنسے ہوئے بحری جہاز کے نائب کپتان دلدار احمد کے بیٹے اسد الرحمٰن نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ ان کا آج تھوڑی دیر پہلے سیٹلائیٹ فون کے ذریعے اپنے والد سے رابطہ ہوا ہے۔اسد الرحمٰن کے مطابق ان کے والد اور پھنسے ہوئے دیگر ملّاحوں تک گذشتہ رات پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن کا ایک خیر پور نامی بحری جہاز پہنچا ہے جس نے ان کو ابتدائی طبی امداد کے علاوہ ایک ماہ کا راشن اور پانی فراہم کیا ہے۔اسد الرحمٰن کے مطابق انھوں نے اْن کے والد اور پھنسے ہوئے ملّاحوں کو بتایا ہے کہ ان کی مدد کے لیے آج یا کل ایک اور بحری جہاز بھیج دیا جائے گا۔ اسد الرحمٰن کا کہنا تھا کہ اب حکام ہمارے ساتھ رابطے میں آ چکے ہیں،امید ہے کہ اْن کو جلد از جلد مدد فراہم کر دی جائے گی۔ اْن کے ایک ساتھی کیپٹن محمد منظور سعید نے بی بی سی کو بتایا کہ اِس وقت اْن کی اطلاع کے مطابق دو لوگوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہوئی تھی۔ مگر گذشتہ رات راشن اور طبی امداد ملنے کے بعد اب وہ کچھ بہتر ہوئے ہیں۔اْن کا کہنا تھا کہ گذشتہ رات ان تک پہنچنے والا جہاز پھنسے ہوئے ملّاحوں کو وہاں سے نکال سکتا تھا مگر ملّاح یہ چاہتے ہیںکہ خراب جہاز کو بھی اْن کے ہمراہ جدّہ کے ساحل تک پہنچایا جائے۔کیپٹن محمد منظور سعید کے مطابق اس کی وجہ پاکستانی ملّاحوں کی آٹھ ماہ کی تنخواہیں ہیں۔ ’یہ غریب اور مزدور لوگ ہیں، اگر جہاز کو ساحل تک نہ پہنچایا گیا تو ان کی تنخواہیں رک جانے کے علاوہ اِن کے لیے مزید مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔‘کیپٹین محمد منظور سعید کا کہنا تھا کہ اس وقت جہاز ان چھ ملّاحوں کی ذمہ داری میں ہے۔’اگر وہ جہاز کو چھوڑ کر ساحل پر آجاتے ہیں اور جہاز کو نقصان پہنچتا ہے تو ممکنہ طور پر ان پر ذمہ داری عائد ہوسکتی ہے جس سے ان کے لیے قانونی مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔‘اْنھوں نے بتایا کہ ’جہاز کو محفوظ مقام تک پہنچانا ان ملّاحوں کی ذمہ داری ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ جہاز کو چھوڑ دینے سے وہاں پر موجود ٹریفک کے لیے مسائل اور مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں، کوئی بھیحادثہ پیش آسکتا ہے، جس وجہ سے بھی وہ جہاز کو نہیں چھوڑ سکتے۔‘اسد الرحمٰن کا بھی کہنا تھا کہ پھنسے ہوئے ملّاح چاہتے ہیں کہ مزید مسائل سے بچنے کے لیے خراب جہاز کو بھی ساحل تک پہنچایا جائے۔ قبل ازیں اتوار کو بی بی سی کے عمیر سلیمی سے سیٹلائٹ فون کے ذریعے گفتگو کرتے ہوئے اس جہاز کے نائب کپتان دلدار احمد نے بتایا تھا کہ وہ اب جہاز کا رخ کسی طرف نہیں موڑ سکتےاور مکمل طور پر سمندر کے رحم و کرم پر ہیں۔’سمندر کی لہریں اس جہاز کو جدھر لے جاتی ہیں، جہاز اس سمت پر گھوم جاتا ہے۔ ہمیں ڈر لگ رہا ہے کہ لہریں اس کو الٹا ہی نہ دیں۔‘انھوں نے بتایا تھا کہ بحیرہ احمر میں پہلے جہاز کا ایک انجن خراب ہوا، پھر دوسرا اور اس کے بعد جہاز کے سٹیئرنگ کا ہائیڈرولک سسٹم بھی جواب دے گیا۔اْنھوں نے بتایا تھا کہ انھیں سمندر کا پانی پی کر گزارا کرنا پڑ رہا تھا۔’حالات اتنے برے ہیں کہ ہم جہاز کے انجن میں ڈیزل اور پیٹرول ملے ہوئے پانی میں چاول ابال کر کھانے پر مجبور ہیں۔‘دلدار احمد نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھ عملے کے پانچ ارکان، جن میں سلام الدین، عبدالغنی، محمد اسماعیل، محمد شفیع اور علی محمد نامی افراد شامل ہیں۔ یہ جہاز عمان سے مصر لے جایا جا رہا تھا۔ دلدار احمد نے بتایا تھا کہ ‘ہماری صورتحال یہ ہے کہ جب حلقبالکل خشک ہو جاتا ہے تو اس وقت انجنوں میں سے ڈیزل اور پیڑول ملا پانی نکالتے ہیں یا سمندر میں سے پانی لیتے ہیں۔ اسے ابالتے ہیں اور پھر کپڑے سے چھان کر اتنا پی رہے ہیں کہ بس حلق تر ہو جائے۔’انھوں نے بتایا تھا کہ عملے کے پاس اب جہاز میں کھانے کے لیے چاولوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔’جب ہم بھوک سے نڈھال ہوتے ہیں تو اسی پانی سے چاول ابالتے ہیں۔ اس کے دو، تین نوالے کھاتے ہیں،جب ابکائی آنا شروع ہو جائے تو پھر چھوڑ دیتے ہیں۔’دلدار احمد کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کے ساتھی سب بیمار ہیں اور انھیں بات کرنے میں بھی دشواری ہو رہی ہے۔دلدار احمد کے مطابق ان کا بیرونی دنیا سے رابطہ صرف ان کے سٹیلائٹ فون کے ذریعے ممکن ہے اور ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ یہ فون بھی کہیں جواب نہ دے جائے۔’گھر والے جب فون کرتے ہیں تو ان کو ہم تسلی دیتے ہیں، مگر ہم انھیں یہ نہیں بتا سکتے کہ اگر ہمیں مدد نہ ملی تو ہم مر جائیں گے۔ اور اس فون پر تو کال کرنا بھی اتنا مہنگا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں