خدارا وطن کی خاطر!!!

زندگی کے نشیب و فراز میں کئی بار ایسے مواقع آتے ہیں جن پر تاریخ اپنے قدم جماتی ہے، قرطاس پر رقم ہونے والے یہ سانحات کچھ معاشروں پر مثبت مگر باقیوں پر منفی اثرات چھوڑتے ہیں۔ یہ زندگی کی حقیقت ہے جس نے دنیا بھرمیں مقابلے کی آگ بھڑکا رکھی ہے۔ انسان اپنی چالوں اور سازشوں کے جال میں خود پھنسا ہوا ہے جو اسے پستیوں میں دھنسائے جاتی ہیں۔دنیا میں انسان کا اٹھایا ہر قدم اور زبان سے ادا ہوتا ہر لفظ اس کا ہمیشہ پیچھا کرتا ہے۔ ایک شکوہ آج زبان زد عام ہے کہ پہلے کبھی ایسے دن نہ تھے جتنے برے اب ہو چکے ہیں۔ ہر آنے والے دن کو لوگ کوستے سنائی دیتے ہیں۔ اور اسی طرح ساری نسلیں بربادی کی سمت سفر کر رہی ہیں۔کیونکہ انہیں اپنی قوتِ بازو اور ثابت عقل سے تدبیر کرنے کی بجائے صرف تقدیر و قسمت سے شکوہ ہے۔ ان کی سوچوں کا محور اب صرف یہی ایک نقطہ ہے کہ قدرت نے ان کے ساتھ نا انصافی کی ہے۔ یہ سوچ اور اس سوچ کی حامل قوم بنانے میں پورے پچاس سال صرف ہوئے اور اس نحوست کو ہمارے اندر سرایت کئے ہوئے چھبیس سال ہو چکے ہیں۔ فطرت اور تاریخ کسی کو معاف نہیں کرتی۔ ایسی مثالوں سے قرطاس بھرے پڑے ہیں۔

درحقیقت اگر سوچا جائے تو یہ پورا ایک توازن ہے جو بگاڑ اوربناؤ کے تناسب پر کھڑا ہے۔میرے تاریخی و جغرافیائی تہذیب و تمدن کے مشاہدے میں ایک تہذیب کا دوسری تہذیب میں شامل ہونے یا ختم ہونے میں تین نسلوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔ہم اگر اپنی قومیت کے فلسفہ کویاد کرنے کی کوشش کریں توسر جھک جاتا ہے۔ ہمارے تہذیب و تمدن اور ثقافت اب پاکستان سمیت دنیا بھر میں ناپید ہوتے جا رہے ہیں۔ قومیت کے فلسفے کا مرکزی نقطہ بدلتا جا رہا ہے۔ اس کی جگہ لبرل ازم، سیکولرازم، کمیونزم نے لے لی ہے، جنہیں پاکستان میں پنپتے ہوئے چھبیس برس ہو چکے ہیں۔اب ہمارا نقطہءِ نگاہ زیرک نہیں رہا، کہ ہمارے دل مؤمن نہیں رہے۔ہماری مفلوج سوچیں ایک نادیدہ سراب کو سب کچھ مان کر اس کے پیچھے بھاگ رہی ہیں لیکن اس کی منزل دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔سوچوں اور کرداروں کی اسی کشمکش میں آج جو معاشرہ تشکیل ہو چکا ہے وہ انسانی، حیوانی، سماجی، تہذیبی نیز ہر اعتبار سے پست ہے۔ گالی و گولی کی سیاست، دولت و شر کی معاشرت و سماجت، عہدے کی انسانیت رہ گئی ہے۔ ان نام نہاد اقداروں کی وجہ سے ہم شاید حیوانیت کے درجہ سے بھی گر چکے ہیں۔ صرف میں اور فقط میں ہی کے چکروں میں ہم بھول چکے ہیں کہ اپنے گھر کا دفاع کس طرح کرنا چاہئے اور ہمارے گھر کی تکریم و حرمت ہم سے کن اقداروں کا مطالبہ کرتی ہے۔ محنت میں عظمت تلاش کرنے کی بجائے ہم لوگوں کو نیچا دکھا کر یا ان کی ٹانگیں کھینچ کر عظمت حاصل کر نا چاہتے ہیں۔اچھائی و برائی کی تمیز ہم کھو چکے۔دولت و آسائش کو معیار زندگی سمجھ رکھا ہے خواہ وہ جائز یا ناجائز کسی بھی طریقے سے حاصل کی جائے۔اس تشکیل شدہ معاشرے میں صرف وہی ایماندار ہے جس کا کوئی داؤ نہیں لگ رہا۔اپنے مفاد سے بڑھ کر کچھ مقدم نہیں رہا پھر چاہے وہ جذبہ ایمانی ہو یا حب الوطنی۔

تاریخ ایسی کئی مثالیں پیش کرتی ہے کہ جب اقوام ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر مقدم رکھتی ہیں تو تباہی و بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے انہیں اس کا احساس تب ہوتا ہے جب انکی حالت قابل رحم ہو جاتی ہے لیکن تب کوئی ان پر ترس بھی نہیں کھاتا۔پاکستان میں اس وقت نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔نشونما سے مفلوج اذہان کے باعث وہ معاشرے میں موجود روایات کی اندھی تقلید شروع کر دیتے ہیں۔انکے ذہن میں جو بات بٹھا دی جائے وہ اس پر آنکھیں بند کر کے عمل کیے جاتے ہیں۔سوشل میڈیا پر نوجوانوں کے خیالات دیکھیں تو اس بات کا ادراک ہو جائے گا کہ ہمارے نوجوان کس سمت جا رہے ہیں۔شاطر اور پاکستان کے دشمن لوگ چاہے وہ سیاست، مذہب یا ذرائع ابلاغ سے تعلق رکھتے ہوں، سب نوجوان نسل کو یہ باور کروانے پر تلے ہوئے ہیں کہ ریاست پاکستان کی اصل دشمن فوج ہے۔تاریخ سے ناواقف اور جذباتی نوجوان انکی باتوں میں آکر ذہنی طور پر یہ سب قبول بھی کر رہے ہیں۔اگر ایسا ہی چلتا رہا تو ہمارا مستقبل شدید خطرے سے دوچار ہو گا۔ میری رائے میں اس وقت پاکستان میں دو قسم کی سوچ پروان چڑھ رہی ہے ایک ملک و فوج حامی اور دوسری ملک و فوج مخالف۔اگر ہم نے اپنی نوجوان نسل کو نہ سنوارا یا اسی دھارے میں انہیں بہنے دیا تو ہماری سالمیت اور اتحاد کو مستقبل قریب میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔میرا نوجوانوں، چاہے وہ ن لیگی ہیں، پی ٹی آئی سے ہیں، پیپلز پارٹی سے ہیں یا کسی بھی مذہبی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں سے سوال ہے کہ ایسا ہر بار کیوں ہوتا ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی لیڈر کسی کرپشن، بدعنوانی، حوالہ ہندی یا چاہے کسی بھی کیس میں ثابت ہونے کے بعد یا پہلے کرسی پر سے اٹھایا جاتا ہے تو اس کا نشانہ محض پاک فوج کا ادارہ ہی کیوں ہوتا ہے؟ پھر یہ بیان بازی بھی کی جاتی ہے کہ فوج صرف دفاع سنبھالے سیاست میں کیوں آتی ہے! اور پھر عوام کی عقیدت کیش کرنے کیلئے انہی پاک فوج کے افسران سے تعلقات بھی بنائے جاتے ہیں! کیا تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں سے منسلک لوگ اس کا سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ سیاسی ونگ پاک فوج کا ایک آئینی ادارہ ہے جو سیاسیوں کو ملکی دفاع کو ثبوتاژ کرنے سے روکنے اور حساس معاملات میں دخل اندازی سے باز رکھتا ہے۔ ان دونوں عناصر کا ملکی سالمیت و استحکام سے بالواسطہ تعلق ہے۔ اگر آپ ایسے ادارے کو محض سیاسی، شخصی یا مذہبی عقیدت میں ختم کرنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس کیا گارنٹی ہے کہ آپ کے حکومت میں آنے والے نمائندے اتنے محب وطن ہوں گے کہ وہ ملکی دفاع کو جان، مال اور آبرو سے مقدم جانیں گے؟
میری رائے میں تو اس سوال کا جواب یہی ہے کہ تمام سیاستدان پکڑے جانے کے خوف سے پاک فوج ادارے کو بدنام کرکے ملک میں انارکی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ وہ سزا و جزا سے بچ سکیں۔ ماضی اور حال میں اس کی مثالیں واضح ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں