رزق حلال کمانا کیوں ضروری ہے؟؟؟

تحریر:رشید احمد نعیم

کسب حلال کے معانی ہیں ”حلال کمانا“۔اس سے مراد یہ ہے کہ روزی کمانے کے لیے ایسے طریقے استعمال کرنا جن کو شریعتِ اسلامی نے جائز قرار دیا ہو۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان اس زمین پر اپنی ضرورتیں لے کر پیدا ہوتا ہے۔اسے کھانے کے لیے غذا، پینے کے لیے پانی، پہننے کے لیے لباس، گرمی سردی،بارش اور طوفان یا دیگر موسمی کیفیات سے بچنے کے لیے گھر چاہیے۔یہ انسان کی بنیادی ضرورتیں ہیں اورزندہ رہنے کا دارومدار ان ضرورتوں کے پورا ہونے پر ہے۔خالقِ کائنات نے تمام بنیادی ضروریات و سہولیات اس زمین میں پیدا کر دی ہیں۔اللہ تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے ”ہم نے تمہارے لیے اس زمین میں وسائل پیدا کر دیئے ہیں اور ان کے لیے بھی جن کو تم رزق نہیں پہنچاتے“۔اللہ چاہتا ہے کہ ہر شخص خود محنت اور جدو جہد کر کے ان وسائل کو حاصل کرے،پھر ان سے اپنی ضروریات اور جائز خواہشات کی تکمیل کرے۔اس جدو جہد اور محنت کے لیے دینِ اسلام نے کچھ اصول بتائے ہیں۔ان اصولوں کے مطابق کمائی کے بعض طریقوں کو جائز قرار دیا ہے اور بعض طریقوں کو ناجائز قرار دیا ہے۔ اس لیے کمائی کا وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس کی اسلام نے اجازت د ی ہے۔ جن کاموں سے دین کی خدمت ہو، مخلوقِ خدا کی بھلائی ہو، انسانوں کا فائدہ ہو اور وہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کے کسی حکم کے خلاف نہ ہوں وہ جائز ہیں مثلاً تجارت،ملازمت،زراعت، محنت مزدوری اور دستکاری وغیرہ،ان کے برعکس وہ تمام کام جن سے اللہ اور اس کے رسولﷺ کے حکم کی خلاف ورزی ہوتی ہو یا مخلوقِ خدا کی پریشانی و تکلیف کا باعث ہوں،وہ سب ناجائز ہیں۔جیسے شراب اور سُور کی تجارت،سودی لین دین،رشوت خوری، چوری، ڈکیتی، دھوکہ، فریب،فراڈ کے ذریعے مال حاصل کرنا،ناپ تول میں کمی، ملاوٹ کرنا کیونکہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ”ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے“ جوا،منشیات کی خرید و فروخت یا اسمگلنگ وغیرہ۔ اسلام نے کسبِ حلال کی اہمیت پر بہت زور دیا ہے۔حلال روزی کمانا عبادت ہے۔ مگر اس کے عبادت ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری تمام عبادات مثلاً نماز،روزہ وغیرہ کو کاروبار اور ملازمت کی وجہ سے چھوڑ دیا جائے۔رسول اللہﷺ نے کسبِ حلال کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ”حلال روزی فرض (یعنی نماز اور روزہ وغیرہ) کے بعد فرض ہے“۔ایک اور روایت میں ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا ”اپنے اہل و عیال کے لیے حلال رزق تلاش کرو یہ بھی جہاد فی سبیل اللہ ہے“ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا ”ہاتھ کی کمائی سے بہتر اور کوئی کھانا نہیں ہے“مگر آج کل دیکھنے میں آیا ہے کہ اسلامی تعلیمات کو بھول کر روزی کمانے کا آسان طریقہ بھیک مانگنا اپنا لیا جاتا ہے صبح سویرے ہی بھکاریوں کی فوج ظفر موج میدان میں کود پڑتی ہے۔دفتر ہو یا گھر، مسجد ہو یا چوک، بس سٹاپ ہو یا شاپنگ سنٹر بازار ہو یا دوکان صبح سے شام تک ہر طرف آپ کو بھکاری بھیک مانگتے نظر آہیں گے۔اس میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے کہ اسلام میں صدقہ و خیرات کی بہت اہمیت ہے۔مصائب و مشکلات کے خاتمے کے لیے صدقہ و خیرات تیرِ بہدف کا کام کرتا ہے مگر اسلام میں بھیک مانگنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا گیا ہے۔بھیک مانگنا بہت بُری بات ہے۔اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے سے منع فرمایا ہے۔حضوراکرمﷺ نے بھی مانگنے کو نا پسند کیا ہے اور محنت کی کمائی سے گُزر بسر کا درس دیا ہے۔ حضرت محمدﷺ نے محنت کر کے روزی کمانے والے سے ہمیشہ محبت اور مہربانی کا سلوک کیا ہے۔ایک صحابی کے ہاتھ پر پھاوڑا چلاتے چلاتے گٹے پڑ گئے تھے۔آپﷺ نے اس صحابی کا ہاتھ محبت سے چوم لیا۔آپﷺ کا ارشادِ گرامی ہے”اللہ اس بندے کو اپنا دوست رکھتا ہے جو صرف اس لیے محنت کرتا ہے کہ وہ مانگنے سے بے نیاز رہے“ حضرت محمدﷺ بے حد سخی تھے مگر جب کوئی صحت مند اور درست ہاتھ پاؤں والا سوال کرتا تو آپﷺ کو بھیک مانگنا بے حد نا گوار گزرتا تھا۔حجتہ الوداع کے موقع پر رسول کریم ﷺ صدقے کا مال تقسیم فرما رہے تھے۔آپ ﷺ نے دو صحت مند افراد کو قطار میں دیکھا۔آپ ﷺ نے ان سے فرمایا”تم چاہو تو میں اس میں سے تم کو بھی دے سکتا ہوں لیکن جو لوگ تندرست ہیں اور محنت کر کے روزی کما سکتے ہیں، ان کا اس مال میں کوئی حصہ نہیں ہے“ ایک دفعہ ایک انصاری آپﷺ کے پاس آئے اور مدد کی درخواست کی۔ نبی اکرمﷺ نے فرمایا”تمھارے پاس کیا ہے؟“ انھوں نے عرض کیا”پانی پینے کا پیالہ اور ایک کمبل ہے جس کا کچھ حصہ بچھا لیتا ہوں اور کچھ اوڑھ لیتا ہوں“آپﷺ نے انصاری سے دونوں چیزیں منگوائیں اور مجلس میں موجود لوگوں سے ارشاد فرمایا”یہ چیزیں کون خریدے گا“؟ ایک صحابی چار درہم دینے کو تیار ہو گئے۔ آپﷺ نے وہ چیزیں چار درہم میں ان کے حوالے کیں اور رقم انصاری کو دے کر فرمایا”ایک درہم کا کھانا خرید کر گھر دے دو۔ باقی رقم سے کلھاڑا اور رسی خریدو اور جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر شہر میں بیچ کر آیا کرو“ پندرہ دن بعد انصاری کے پاس بیس درہم جمع ہو چکے تھے۔اس رقم سے انھوں نے کچھ کا غلہ اور کچھ کا کپڑا خریدا۔ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو رسول اکرمﷺ نے خوش ہو کر فرمایا”تمھاری یہ حالت اچھی ہے یا وہ جب قیامت میں تم چہرے پر گدائی کا داغ لے کر جاتے“َ۔ رسولکریمﷺ خود بھی محنت کر کے روزی کماتے تھے۔محنت سے کام کرنے میں آپﷺ نے کبھی عار محسوس نہ کی۔آپ ﷺ شروع میں لوگوں کی بھیڑ بکریاں معاوضے پر چرایا کرتے تھے۔آپ ﷺ کو تجارت کا پیشہ پسند تھا چنانچہ روزی کمانے کے لیے اس پیشے میں بھی محنت اور دیانت داری سے کام لے کر روشن مثال قائم کی۔آپﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ خود کنوئیں سے پانی لاتیں۔اناج پیستیں اور گھر میں جھاڑو دیتی تھیں۔صحابہ کرام بھی محنت سے لوگوں کی خدمت میں کوئی جھجھک محسوس نہ کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق خلیفہ ہوتے ہوئے بھی نہ صرف اپنا کام کرتے بلکہ بیوہ عورتوں اور بوڑھے ہمسایوں کے کام کاج بھی کر دیا کرتے تھے۔ حضرت عمرفاروق لوگوں کا حال جاننے کے لیے رات کو گشت کرتے اور محنت کر کے ضرورت مندوں کی خدمت کیا کرتے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ صدقہ و خیرات ضرور کریں مگر پیشہ ور بھکاریوں کی بجائے سفید پوش افراد کی مدد کریں جو چمٹ چمٹ کر سوال نہیں کرتے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لیے معاشی تنگدستی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ چوری، بدیانتی، ہیرا پھیری، رشوت اور دھوکہ و فراڈ کے ذریعے دولت کمانے کوآسان حل سمجھا جاتا ہے مگر در حقیقت یہ سراسر نقصان و گھاٹے کا سودا ہے کیو نکہ حرام کی کمائی سے مال میں برکت نہیں ہوتی۔حضرت عبداللہ بن عمر ؒ فرماتے ہیں کہ”میں نے نبی اکرم ﷺ سے سُنا ہے کہ کوئی شخص کپڑا خریدے جس کی قیمت میں ایک تھورا سا حصہ حرام آمدنی کا بھی ہو تو اس وقت تک اس کی نماز قبول نہیں ہو گی جب تک وہ کپڑا اس کے بدن پر رہے گا“ ارشاد نبویﷺ ہے کہ ”جس بدن نے حرام مال سے پرورش پائی ہو وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا“۔ایک اور ارشاد نبویﷺ ہے ”بدن کا گوشت جو حرام سے پیدا ہو،ا س کا آگ میں جلنا بہتر ہے“ جبکہ حلال کمائی نیک کاموں کے لیے مددگارثابت ہوتی ہے۔ برائیوں سے نفرت پیدا کرتی ہے۔االلہ تعالیٰ کی خوشنودی اور بخشش کا ذریعہ بنتی ہے۔ حلال روزی سے حکمت و دانش مندی حاصل ہوتی ہے۔ کسبِ حلال سے دلی سکون اور اطمینان ملتا ہے۔حلال کمانے والے کو لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ رزقِ حلال سے دعائیں قبول ہوتی ہیں۔اس لیے ہمیں چائیے کہ ہم خود بھی رزق حلال کمائیں اور کھائیں نیز دوسروں کو بھی حلال کمانے اور حلال کھانے کی تلقین کریں تاکہ ہم اللہ کے عذاب سے بچ سکیں اور حلال رزق کی برکات سے مستفید ہو سکیں۔اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں