وزیراعظم کا ممکنہ دورہ‘ قطر میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد کو روزگار ملنے کا امکان

آئندہ ہفتے ممکنہ دورے میں شہبازشریف فیفا ورلڈ کپ کیلئے زیادہ سے زیادہ پاکستانیوں کی بطور سکیورٹی اہلکار بھرتی کا مطالبہ کریں گے‘ خلیجی ملک کے ساتھ 15 سالہ ایل این جی ڈیل کی تجویز بھی سامنے آگئی

اسلام آباد ( مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان کی قطر کے ساتھ 15 سالہ ایل این جی ڈیل کا امکان ہے، وزیر اعظم کی جانب سے ایل این جی کی فراہمی میں ریلیف کے لیے آنے والے دنوں میں قطر کا دورہ متوقع ہے، دورے کے دوران شہباز شریف آئندہ فیفا ورلڈ کپ کے لیے پاکستانیوں کی زیادہ سے زیادہ سکیورٹی اہلکاروں کی بھرتی کا مطالبہ بھی کریں گے۔
نجی میڈیا نے رپورٹ کیا ہے کہ پاکستان قطر کے ساتھ G2G (گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ) کی بنیاد پر 15 سال کا ایل این جی معاہدہ کرسکتا ہے، جس کے تحت ایک ماہ میں 2 کارگو ملنے کی توقع ہے جس کی قیمت 11 سال بعد دوبارہ کھولی جائے گی، اس ضمن میں وزیر اعظم کے دورہ قطر کی ممکنہ تاریخیں 23 سے 24 اگست ہیں لیکن ان کو حتمی شکل دینا ابھی باقی ہے۔ ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ آر ایل این جی پر چلنے والے 2 پاور پلانٹس حویلی بہادر شاہ اور بلوکی کو فروخت کرنے کی بھی تجویز ہے، 1,223 میگاواٹ کا بلوکی کمبائنڈ سائیکل گیس سے چلنے والا پاور پلانٹ عالمی سطح پر سب سے زیادہ موثر پاور پلانٹس میں سے ایک ہونے کے باعث پاکستان میں توانائی کی کمی کو پورا کرتا ہے، پلانٹ کی کارکردگی 61 فیصد سے زیادہ ہے، یہ پلانٹ جولائی 2018 میں کمرشل آپریشنز میں داخل ہوا اور 60 لاکھ سے زائد پاکستانی گھروں کو فراہم کرنے کے لیے درکار بجلی پیدا کرتا ہے۔
اسی طرح 1,230 میگاواٹ کا کمبائنڈ سائیکل حویلی بہادر شاہ منصوبہ دنیا کا سب سے زیادہ موثر پاور پلانٹ ہے جس کی RLNG ایندھن پر 62.44 فیصد کی بے مثال کارکردگی ہے، یہ اعلی کارکردگی براہ راست ایندھن کی لاگت کی بچت کے ذریعے قومی خزانے کے لیے بڑی بچت کا باعث بنتی ہے اور لوگوں اور صنعت کو سستی بجلی فراہم کرے گی، بظاہر ان دونوں پاور پلانٹس کی قیمتیں 2 بلین ڈالر ہیں لیکن یہ لین دین ممکن نہیں ہو گا کیونکہ پاکستان کے پاس دونوں منصوبوں میں 450 ملین ڈالر کی ایکویٹی ہے، جسے حکومتی منصوبوں کے لیے حاصل کیے گئے قرضوں کے ساتھ متحدہ عرب امارات یا قطر کو فروخت کیا جا سکتا ہے تاہم جہاں تک ذمہ داریوں کا تعلق ہے تو خریدار ان کے مالک نہیں ہو سکتے لہذا اگر دونوں کو 450 ملین ڈالر میں فروخت کیا جاتا ہے تو لوگ اور اپوزیشن جماعتیں اس فیصلے پر تنقید شروع کر دیں گی اس لیے یہ لین دین ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔
دریں اثنا نیپرا نے دونوں پلانٹس کے منافع کو ڈالر کے لحاظ سے 12 فیصد تک رعایت دی جس کی وجہ سے یہ ممکنہ خریداروں کے لیے پرکشش نہیں ہو سکتے تاہم اس بات کے امکانات ہیں کہ اعلیٰ عہدیداران دونوں منصوبوں کی فروخت کی بات چیت متحدہ عرب امارات اور قطر کے حکام کے ساتھ بھی کریں گے، تجویز کے تحت خریدار دونوں پاور پلانٹس کو ایل این جی فراہم کرنے کے ذمہ دار ہوں گے تاہم انہیں ایل این جی ٹرمینلز اور پائپ لائنز کے انفراسٹرکچر کے استعمال کے لیے ادائیگی کرنا ہوگی۔
رپورٹ میں قطر کے ساتھ ایل این جی کے نئے معاہدے سے متعلق حکومتی عہدیدار کے حوالے سے معلوم ہوا کہ قطر کے ساتھ یہ تیسرا جی ٹی جی ایل این جی سپلائی معاہدہ ہوگا اگر دوحہ اس معاہدے کو ایسے وقت میں کرنے پر راضی ہوتا ہے جب ایل این جی ایک نایاب شے بن چکی ہے اور ایل این جی پیدا کرنے والے تمام ممالک اور ایل این جی تجارتی کمپنیاں یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے 2024 تک مصنوعات کی فراہمی کے لیے یورپی ممالک کے ساتھ زیادہ پرعزم تھے تو قطر پاکستان کو 2025ء سے 26 تک ایل این جی ڈیل کی پیشکش کر سکتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں