تائیوان چین تنازع: اگر چین جنگ چھیڑتا ہے تو تائیوان کی دفاعی حکمت عملی کیا ہو گی؟

چین کا دفاعی بجٹ تائیوان سے 13 گنا زیادہ ہے جبکہ یہ فوجی تعداد میں بھی تائیوان سے کہیں بڑا ہے۔ تو اگر جنگ ہو گئی تو تائیوان اپنا دفاع کیسے کرے گا؟

امریکی ایوان نمائندگان کی سپیکر نینسی پیلوسی کے دورہ تائیوان کے بعد سے چین تائیوان کے اطراف میں بڑی فوجی مشقیں جاری رکھے ہوئے ہے اور بظاہر اس دورے پر اپنی ناراضگی کا اظہار ہر طرح سے کر رہا ہے۔

فوجی مشقوں کے دوران داغے گئے میزائل تائیوان کی فضائی حدود میں بھی گئے اور اس سلسلے میں بڑھنے والی کشیدگی فی الحال کم ہونے کا نام نہیں لے رہی کیونکہ جمعے کو چین نے امریکہ کے ساتھ مختلف اہم شعبوں میں تعاون ختم کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔

چند ماہرین اس رائے کے حامل بھی ہیں کہ چین کی طاقتور پیپلز لبریشن آرمی تائیوان پر کسی نہ کسی صورت میں حملہ بھی کر سکتی ہے تاہم ان کے مطابق اس حملے کی صورت میں ہونے والی لڑائی یکطرفہ ہو گی کیونکہ یہ ایک ایسا تصادم ہو گا جس میں ایک فریق (چین) فوجی صلاحیت کے لحاظ سے دوسرے فریق (تائیوان) سے بہت زیادہ مضبوط ہو گا۔

شاید یہ ویسی ہی صورتحال ہو جیسی کہ ہم نے روس اور یوکرین کے درمیان دیکھی تاہم ضروری نہیں کہ دونوں فریقوں کے درمیان طاقت کا یہ عدم توازن جنگ جیسے نتیجے پر ختم ہو۔

ڈیفنس شیلڈ: تائیوان کی ممکنہ دفاعی حکمت عملی
چین کی آبادی لگ بھگ ایک ارب 40 کروڑ ہے جبکہ اس کے مقابلے میں تائیوان کی آبادی فقط تقریباً دو کروڑ 40 لاکھ بنتی ہے۔ چین کا دفاعی بجٹ تائیوان کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ ہے جبکہ چین فوج کے سائز، فوجی ساز و سامان اور ہتھیاروں میں بھی تائیوان سے بہت آگے ہے۔

تائیوان اس عدم توازن سے بخوبی آگاہ ہے، اس لیے اس نے ’ڈیفنس شیلڈ‘ کی حکمت عملی اپنائی ہے، بالکل ویسے ہی جیسے کوئی خارپشت بیرونی حملہ آور سے بچنے کے لیے اپنے کانٹے اپنے جسم کے ارد گرد پھیلا دیتا ہے تاکہ حملہ آور اسے نقصان نہ پہنچا سکے۔ یہی تائیوان کی بھی یہی حکمت عملی ہے۔

اس دفاعی حکمتِ عملی پر تبصرہ کرتے ہوئے تائی پے ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا کہ ’اگر حملہ آور اب بھی تائیوان پر حملہ کرنے پر اصرار کرتا ہے تو اسے انتہائی ہولناک سزا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سزا کا ایسا دردناک ردعمل ہو گا کہ آخر کار حملہ آور حملہ ختم کرنے پر مجبور ہو گا۔‘

تائیوان نے اس حکمت عملی کی بنیاد پر ایک ہمہ جہتی حفاظتی نظام اپنایا ہے۔ اس حکمت عملی میں دشمن کو تائیوان کے ساحل پر روکنا، سمندر میں حملہ کرنا، ساحلی علاقے پر حملہ کرنا اور دشمن کے ساحلی محاذ پر حملہ کرنا شامل ہیں۔

مہنگے لڑاکا طیارے اور آبدوزیں خریدنا تائیوان کی ترجیح نہیں ہے۔ اس کے مقابلے میں یہ موبائل اور خفیہ ہتھیاروں کی تنصیب کو ترجیح دیتا ہے جیسے اینٹی ایئر کرافٹ اور اینٹی شپ میزائل۔

دفاعی ماہرین کیا کہتے ہیں؟
کنگز کالج لندن میں انٹرنیشنل آرڈر، ڈیفنس اور چائنا ویسٹ ریلیشنز کے ماہر جینو لیونی ’بقا کی حکمت عملی‘ کے بارے میں مزید تفصیل سے بتاتے ہیں جس پر تائیوان کام کر رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں ’سکیورٹی کی سب سے بیرونی تہہ انٹیلیجنس اور نگرانی کی حکمت عملی کا مجموعہ ہے۔ اس کا مقصد فوج کو مکمل طور پر تیار رکھنا ہے۔ کئی برسوں کے دوران تائیوان نے حملے سے کافی پیشتر وارننگ دینے کا نظام تیار کیا ہے تاکہ چین کی جانب سے درپش کسی بھی خطرے کا قبل از وقت پتا چلایا جا سکے۔‘

لیونی کا کہنا ہے کہ ’اگر چین کو تائیوان پر حملہ کرنا ہے، تو اسے تائیوان کے ریڈار سٹیشنز، فضائیہ کے اڈوں اور میزائلوں کی کھیپ کو تباہ کرنے کے لیے درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں اور فضائی حملوں سے آغاز کرنا ہو گا۔‘

تائیوان کی اس حکمت عملی کے مطابق دوسری حفاظتی تہہ سمندر کے بیچوں بیچ گوریلا لڑائی کے لیے میرینز کو تیار رکھنا ہے اور تائیوان کے مطابق امریکی ساختہ لڑاکا طیارے اس صورت میں مدد کے لیے تیار ہوں گے۔

چھوٹی اور چست کشتیوں کو میزائلوں کے ساتھ تعینات کیا جائے گا جنھیں زمین سے ہیلی کاپٹروں اور میزائل لانچروں کی مدد حاصل ہو گی۔ یہ چینی بحری بیڑوں کو تائیوان کی سرزمین تک پہنچنے سے روکیں گے۔

لیونی کا کہنا ہے کہ ’تائیوان کے لیے تیسری حفاظتی تہہ کی حکمت عملی کے مطابق اپنی زمین اور آبادی کا دفاع انتہائی اہم ہے۔‘

چین کے فوجیوں کی تعداد تائیوان کے فوجیوں کی تعداد سے 12 گنا زیادہ ہے۔ چین کے پاس 15 لاکھ ریزرو فوجی ہیں۔ اگر تائیوان کی زمین پر قبضہ کرنا ہے تو چین اس ریزرو فوج کو استعمال کر سکتا ہے۔

سکیورٹی کی تیسری تہہ کے طور پر تائیوان تیز رفتار، مہلک اور آسانی سے چھپانے والے ہتھیاروں کا استعمال کرے گا۔

جیولین اور سٹنگر میزائل سسٹم جو بہت سے یوکرینی فوجی اپنے کاندھوں پر اٹھائے نظر آتے ہیں، اس کی ایک مثال ہیں۔ یہ ہتھیار یوکرین میں روسی جنگی طیاروں اور ٹینکوں کے لیے بہت بڑا دردِ سر بنے ہوئے ہیں۔

امریکہ کا کیا ردعمل ہو گا؟
چین اور تائیوان کے درمیان جنگ چھڑ گئی تو امریکہ کیا کرے گا؟ اب تک کے اشاروں سے یہی لگتا ہے کہ امریکہ اس سلسلے میں جان بوجھ کر اپنی حکمت عملی کو چھپا رہا ہے۔

امریکہ کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے حال ہی میں کہا کہ ’امریکہ کے اس مبہم رویے نے ہمیں کئی دہائیوں تک آبنائے تائیوان میں امن برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔

مئی کے مہینے میں امریکی صدر جو بائیڈن نے یہ بیان دے کر سب کو ششدر کر دیا تھا کہ اُن کا ملک تائیوان کے دفاع کے لیے ’پُرعزم‘ ہے۔

تاہم بعدازاں اپنے بیان کو ایک اور طریقے سے بیان کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اس خطے کے حوالے سے امریکہ کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

امریکہ کی اسی پالیسی کا مقصد چین کو تائیوان پر حملہ کرنے سے روکنا ہے۔ لیکن یہ پالیسی تائیوان کو اپنی آزادی کا اعلان کرنے سے بھی روکتی ہے۔

امریکی قانون سازوں نے اس حکمت عملی میں تبدیلی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس میں وضاحت ہونی چاہیے تاکہ تائیوان پر دباؤ بڑھانے والے چین کو اس کے عزائم سے روکا جا سکے۔

تاہم اس سب کے باوجود بہت کم لوگوں کا ہی خیال ہے کہ اگر چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ خاموش رہے گا۔

نیٹو کی حکمت عملی کے تجزیہ کار کرس پیری کہتے ہیں کہ ’آپ اپنے ممکنہ حریف کو کبھی نہیں بتاتے کہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں۔‘ اس کے لیے امریکا جو کچھ بھی کرے گا، اس میں صرف فوجی طریقہ کار شامل نہیں ہو گا۔

’امریکہ چین کے خلاف بہت سے طریقے آزما سکتا ہے۔ یہ تجارت اور مالیات سے متعلق طریقے ہو سکتے ہیں۔‘

چین جس طرح تائیوان کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے، وہاں کے لوگوں میں خوف کے بجائے غصہ ہے۔ چین کی دھمکیاں اور فوجی مشقیں تائیوان کی سمندری اور فضائی ٹریفک میں خلل ڈال رہی ہیں۔

موجودہ صورتحال کے باعث کئی بحری جہاز ساحل سمندر پر پھنس گئے ہیں، کئی پروازیں منسوخ کر دی گئی ہیں اورتائیوان کے گرد چین کی فوجی مشقوں نے تائیوان میں لوگوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں