سپریم کورٹ میں ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن اجلاس کا معاملہ

28 جولائی کے اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ اور منٹس پبلک نہیں کیے جانے چاہیے تھے،جوڈیشل کمیشن کے ممبران میں ذاتی اختلاف کی خبریں تشویشناک ہیں،چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے کہ تمام ممبران کے تحفظات کو دور کریں۔ممبر جوڈیشل کمیشن ایڈووکیٹ اختر حسین نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ دیا

اسلام آباد (نیوز ڈیسک) سپریم کورٹ میں ججز تقرری سے متعلق جوڈیشل کمیشن اجلاس کا معاملہ،ممبر جوڈیشل کمیشن ایڈووکیٹ اختر حسین نے بھی چیف جسٹس کو خط لکھ دیا۔ایڈووکیٹ اختر حسین نے خط میں کہا کہ جوڈیشل کمیشن رولز میں ترمیم لازمی ہیں۔سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج کی سربراہی میں کمیٹی 4 ہفتے میں جوڈیشل کمیشن رولز میں ترمیم کرے۔
28 جولائی کے اجلاس کی آڈیو ریکارڈنگ اور منٹس پبلک نہیں کیے جانے چاہیے تھے۔جوڈیشل کمیشن کے ممبران میں ذاتی اختلاف کی خبریں تشویشناک ہیں۔خط میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کی ذمہ داری ہے کہ تمام ممبران کے تحفظات کو دور کریں۔جسٹس قاضی فائز عیسٰی،جسٹس سردار طارق،جسٹس سجاد علی شاہ اور اٹارنی جنرل کے خطوط پڑھے،اقلیتی ممبران کے کہنے پر جوڈیشل کمیشن اجلاس ختم نہیں کرنا چاہیے۔

جوڈیشل کمیشن کے تمام ممبران کی مشاورت سے اجلاس میں فیصلے ہونے چاہئیں۔اس سے قبل سپریم کورٹ میں 5 ججز کی تعیناتی سے متعلق جوڈیشل کمیشن کے اجلاس کے معاملے پر جسٹس سجاد علی شاہ نے بھی چیف جسٹس پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کو خط لکھ تجا ا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے خط میں لکھا کہ ایک جج کے سندھ ہائیکورٹ کے ججز کے وقار پر سوالات سے مایوسی ہوئی۔
جج نے جوڈیشل کمیشن اجلاس میں سندھ سے 2 وکلا کی رائے پر انحصار کر کے ججز کے کردار پر سوال اٹھایا۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے خط میں لکھا کہ سندھ ہائیکورٹ کے ججز شفیع صدیقی اور حسن اظہر رضوی کے کردار پر وکلا نمائندے اختر حسین نے سنیارٹی کے علاوہ کوئی اعتراض نہیں کیا۔ سندھ ہائیکورٹ کے دو سابق چیف جسٹس اس وقت جوڈیشل کمیشن کے رکن ہیں۔ جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں مزید کہا کہ جوڈیشل کمیشن ممبران کے علاوہ دو موجودہ ججز بھی سندھ ہائیکورٹ سے ہیں۔ججز کے کردار سے متعلق سوالات ان ججز سے پوچھے جا سکتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں