پاکستان اور بھارت ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل عالمی امن پر تحقیق کرنیوالے ادارے کی تازہ ترین رپورٹ جاری، اہم انکشافات

سٹاک ہوم(این این آئی)عالمی امن پر تحقیق کرنے والے ادارے سپری نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت ہتھیاروں کے سب سے بڑے خریداروں میں شامل ہیں۔گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پوری دنیا میں درآمدکیے جانے والے مجموعی ہتھیاروں کا ایک تہائی سے زیادہ امریکا نے فروخت کیااور اس نے اپنے تقریبا نصف ہتھیار مشرق وسطیکے ممالک کو برآمد کیے۔میڈیارپورٹس کے مطابق اسٹاک ہوم انٹرنیشل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سپری)کی طرف سے پیر کے روز جاری کردہ رپورٹ میں کہاگیاکہ 2016 سے سن 2020 تک پوری دنیا میں اسلحے کی فروخت کا رجحان کم ہوتا دکھائی

دیا جب کہ پاکستان، بھارت، آسٹریلیا، چین اورجنوبی کوریا اسلحہ درآمد کرنے والے بڑے ممالک میں شمار ہوئے۔رپورٹ کے مطابق ایشیاء اور اوشینیا ہتھیار درآمد کرنے والے سب سے بڑے خطے رہے۔ سن 2016سے سن 2020کے درمیان اس خطے کے ملکوں میں عالمی ہتھیاروں کا 42 فیصد درآمد کیا گیا۔سپری کے سینیئر محقق زیمون ویزے مین کے مطابق، ایشا اور اوشینیا کے بہت سے ممالک میں یہ سوچ گہری ہو رہی ہے کہ اسلحے کی درآمد میں اضافے کی وجہ چین کی وجہ سے لاحق بڑھتے ہوئے خطرات ہیں۔سعودی عرب نے سب سے زیادہ عسکری ساز و سامان خرید کر بھارت سے اس حوالے سے پہلی پوزیشن چھین لی۔ سپری کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دورانفروخت ہونے والا 12 فیصد اسلحہ سعودی عرب نے خریدا۔ 68 فیصد سعودی اسلحہ امریکا سے خریدا گیا۔سپری کی رپورٹ کے مطابق سن 2011 سے سن 2015 کے مقابلے میں سن 2016 سے سن 2020 تک کے درمیان مشرق وسطی میں ہتھیاروں کی درآمد میں سب سےزیادہ 25 فیصد کا اضافہ ہوا۔سعودی عرب دنیا میں ہتھیار درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے۔ اس کے ہاں ہتھیاروں کی درآمد میں 61 فیصد اضافہ ہوا جبکہ قطر میں ہتھیاروں کی درآمد میں 361 فیصد اضافہ ہوا۔متحدہ عرب امارات نے پچھلے دنوں امریکا سے 23 ارب ڈالر کےہتھیاروں کی خریداری کے ایک معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کے تحت یو اے ای امریکا سے پچاس ایف 35 جنگی طیارے اور 18مسلح ڈرونز خریدے گا۔سن 2016 سے سن 2020 تک کے درمیان دنیا بھر میں جتنے بھی ہتھیار فروخت کیے گئے، ان کا 37 فیصد امریکا نےفروخت کیا۔ امریکا نے 96 ملکوں کو ہتھیار برآمد کیے۔سپری نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکانے جتنے ہتھیار فروخت کیے، ان کا تقریبا نصف مشرق وسطی کے ملکوں کو فروخت کیا گیا۔ سن 2011 سے سن 2015 تک کے مقابلے میں امریکی ہتھیاروں کی برآمد میں پندرہ فیصد کااضافہ بھی ہوا۔گلوبل فائر پاور کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق امریکی فضائیہ دنیا کی سب زیادہ طاقت ور ترین ہے۔ امریکی فضائیہ کے پاس لگ بھگ چودہ ہزار طیارے ہیں۔ ان میں سے تیئس سو جنگی طیارے، تین ہزار کے قریب اٹیک ائیر کرافٹ، تقریبا چھ ہزار کارگو طیارے، لگبھگ تین ہزار تربیتی جہاز اور تقریبا چھ ہزار ہیلی کاپٹر ہیں۔ ان ہیلی کاپٹرز میں ایک ہزار اٹیک ہیلی کاپٹرز بھی شامل ہیں۔سپری کی رپورٹ کے مطابق سن 2016 سے سن 2020 تک پوری دنیا میں اسلحے کی فروخت نسبتا کم رہی۔ تحقیق کے مطابق ایک دہائی تک اسلحے کی فروختمیں اضافے کا رجحان جاری رہنے کے بعد اب اس میں کمی دیکھی گئی ہے۔اسلحہ برآمد کرنے والے تین بڑے ملکوں امریکا، فرانس اور جرمنی کی جانب سے اسلحے کی برآمد میں اضافہ ہوا لیکن روس اور چین کی برآمدات میں کمی ہوئی۔رپورٹ کے مطابق روس ہتھیار برآمد کرنےوالا دنیا کا دوسراسب سے بڑا ملک ہے جبکہ فرانس تیسرے نمبر پر ہے۔ تاہم بھارت کی طرف سے روسی ہتھیاروں کی درآمد میں کمی کی وجہ سے روسی ہتھیاروں کی برآمد میں کمی ہوئی۔رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ سن2001 سے لے کر سن 2005 تک کے بعد یہ پہلا موقعہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مختلف ملکوں کے درمیان اسلحے کے بڑے سودے نہیں ہوئے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیاروں کی طلب میں کمی ہوئی ہے۔سپری کے مطابق 6, 375 جوہری ہتھیاروں کے ساتھ روس سب سے آگے ہے۔ روس نے 1, 570 جوہری ہتھیار نصب بھی کر رکھے ہیں۔سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949 میں کیا تھا۔ سن 2015 میں روس کے پاس آٹھ ہزار جوہری ہتھیار تھے، جن میں سے متروک ہتھیار ختم کر دیے گئے۔ سپری کا یہ بھی کہنا ہے کہ روس اور امریکا جدید اور مہنگے جوہری ہتھیار تیار کر رہے ہیں۔سپری کے مطابق کورونا کی وبا کی وجہ سے دنیا بھرمیں قومی معیشتیں بری طرح متاثر ہوئیں اور متعدد ممالک گہرے معاشی زوال کا شکار ہیں۔ لیکن یہ کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کہ اسلحے کی فروخت میں ہونے والی کمی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹکے سینیئر محقق ویزے مین کا کہنا تھاکہ کووڈ انیس کے معاشی اثرات کے پیش نظر آنے والے برسوں میں بعض ممالک کو اپنے ہاں اسلحے کی درآمدات کا نئے سرے سے جائزہ لینا ہو گا۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ جب سن 2020 میں کورونا وائرس کی وبا زوروں پر تھی، تب بھی ہتھیاروں کی تجارت کے بڑے معاہدے بہرحال کیے گئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں