ڈنمارک:کوپن ہیگن کے شاپنگ سینٹر میں مسلح شخص کی فائرنگ سے 3 افراد ہلاک متعددزخمی

فائرنگ کرنے والا22سالہ نوجوان ڈنمارک کا ہی رہائشی ہے جس سے تفتیش کی جارہی ہے‘حملہ آورنے سوشل میڈیا پر ایسے خیالات کا اظہار کیا تھا جس میں بڑے حملے کا تذکرہ ملتا ہے. ڈینش حکام

کوپن ہیگن (انٹرنیشنل ڈیسک) ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن کے شاپنگ سینٹر میں مسلح شخص کی فائرنگ کے نتیجے میں 3 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے ہیں جرمن نشریاتی ادارے کے مطابق ڈنمارک پولیس نے بتایا ہے کہ اس نے 22 سالہ ڈینش شخص کو گرفتار کر کے اس پر قتل عام کے قانون کے تحت مقدمہ درج کیا ہے. ٹور ڈی فرانس سائیکل ریس کے ابتدائی 3 مراحل کی میزبانی کے فوری بعد ہونے والے اس مہلک حملے نے ڈنمارک کو ہلا کر رکھ دیا ہے، اس حملے کے نہ ہونے کی صورت میں اس ہفتے کا اختتام ملک کے لیے بہت خوشگوار ہونا تھا، ٹور ڈی فرانس سائیکل ریس ایونٹ نے ملک کے لاکھوں باشندوں کو خوشی منانے کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور کر دیا تھا.
ڈنمارک کے وزیر اعظم میٹ فریڈیرکسن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ڈنمارک کو ظالمانہ حملے کا نشانہ بنایا گیا اور وحشیانہ حملے میں کئی افراد ہلاک اور اس سے بھی زیادہ شہری زخمی ہوگئے یہ افسوسناک حملہ اس وقت کیا گیا جب کہ معصوم بچے نو جوان اور بڑے خاندان شاپنگ میں مصروف تھے یا کھانا کھا رہے تھے. انہوں نے کہا کہ ہمارا خوبصورت اور عمومی طور پر انتہائی محفوظ دارالحکومت ایک سیکنڈ میں بدل گیا میں اپنے ملک کے شہریوں کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہیں اور اس مشکل وقت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں کوپن ہیگن پولیس نے بتایا کہ مسلح افسران کو دارالحکومت کے فیلڈز مال میں فائرنگ کی اطلاع کے بعد بھیجا گیا تھا اور اندر موجود لوگوں سے کہا تھا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں اور مدد کا انتظار کریں مقامی میڈیا میں نشر ہونے والی فوٹیج میں خوفزدہ خریداروں کو مال سے نکل کر بھاگتے ہوئے دکھایا گیا تھا.
ڈنمارک کے مقامی وقت کے مطابق مشتبہ شخص کو شام 5 بج کر 48 منٹ پر گرفتار کے کے اس کے قبضے سے اسلحہ برآمد کرلیا گیا تھا ڈنمارک پولیس نے مسلح ملزم کے کسی بھی ساتھی کی تلاش کے لیے علاقے میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کیا یہ حملہ گزشتہ ہفتے ہونے والی ناروے میں ہلاکت خیز فائرنگ حملے کے بعد ہوا ہے ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں ”گے بار“کے قریب فائرنگ کے نتیجے میں 2 افراد قتل اور 21 زخمی ہوئے تھے ناروے پولیس نے اسے دہشت گردی کا واقعہ قرار دے کر ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کر لیا تھا جبکہ شہر میں جاری ”پرائڈ مارچ“ کو منسوخ کر دیا گیا تھا ڈینش سیکیورٹی اینڈ انٹیلی جنس سروس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ڈنمارک کے خلاف دہشت گردی کے خطرہ سنگین ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ مذہبی انتہا پسندی سے ہے.
ڈنمارک میں آخری بار 2015 میں عسکریت پسندانہ حملہ کیا گیا تھا جس میں 2افراد ہلاک اور6 پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے جب مسلح شخص نے کلچر سینٹر کے باہر ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جہاں آزادی اظہار پر مباحثہ ہو رہا تھا اور اس کے بعد مرکزی کوپن ہیگن میں یہودی عبادت گاہ کے باہر بھی ایک شخص کو ہلاک کر دیا تھا مسلح حملہ آور بعد میں پولیس کے ساتھ فائرنگ کے تبادلے میں مارا گیا تھا.
ڈنمارک میں ٹور ڈی فرانس کے ابتدائی 3مراحل کے اختتام کی خوشی میں منعقد کی جانے والی تقریب کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے، اس تقریب میں کراﺅن پرنس اور وزیر اعظم نے بھی شرکت کرنی تھی فائرنگ کے ملزم کو آج جج کے سامنے ابتدائی پوچھ گچھ کا سامنا کرنے کے لیے پیش کیا جائے گا واضح رہے کہ ان سکنڈنیوین ملکوں کو محفوظ اور پرامن ترین تصورکیا جاتا رہا ہے .
برطانوی یونیورسٹی کے ماہرین بشریات‘سماجی اموراور معاشیات کے مطابق اب دنیا کا کوئی حصہ محفوظ نہیں رہا ایک صدی سے انسان نے ایسی پالیسیاں اپنائی ہیں جس سے عام شہریوں میں معاشی عدم تحفظ کے احساس میں اضافہ ہوا ہے دنیا کو چلانے والی چند کارپوریشنزہماری دنیا کو اس نہج پر لے آئی ہیں کہ اب کوئی جگہ محفوظ نہیں رہی معاشی دباﺅ کی وجہ سے انسانوں کے سماجی رویوں میں بڑی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں .
دنیا میں معاشی اتار چڑھاﺅ اور غربت کی وجوہات پر کام کرنے والے برطانوی ادارے”اوکسفیم“نے انکشاف کیا ہے کہ خوراک اورتوانائی کے شعبہ میں سرمایہ کار روزانہ ایک ارب ڈالر کا خالص منافع کمارہے ہیں جبکہ ہر 30گھنٹوں میں 10لاکھ افراد غربت کی لکیر سے نیچے گرتے جارہے ہیںرپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کورونا وبا کے دوران کھرب پتیوں کی تعداد میں 573افراد کا اضافہ ہوا جبکہ 263ملین متوسط طبقے کے افراد غربت میں چلے گئے .
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں توانائی کے شعبہ میں 5بڑی کمپنیاں ہر روزہزاروں ملین ڈالرمنافع کمارہی ہیں جبکہ خوراک کے شعبے میں کام کرنے والی دنیا کی ایک کارپویشن کا روزانہ منافع کروڑوں ڈالر روزانہ میں ہے اور اس کارپوریشن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ مختلف ناموں دنیا بھر میں خوراک پر مکمل کنٹرول کے منصوبے پر کام کررہی ہے. آکسفیم کے مطابق دنیا کے دس امیر ترین افراد دنیا کی کل آبادی کے 40 فیصد یعنی 3.1 ارب لوگوں سے زیادہ دولت کے مالک ہیں‘دنیا کے 20امیر ترین افراد کی دولت کی مالیت سب صحارا اورافریقہ کی پوری جی ڈی پی سے زیادہ ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کے ان چند امیر ترین افراد کی دولت کا کوئی ایک فیصدبھی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے 112سال تک مسلسل کام کرنا پڑے گا .

اپنا تبصرہ بھیجیں