پاکستان کا درآمدی ایل این جی پر بڑھتا ہوا انحصار ملک کی انرجی سکیورٹی اور مالیاتی استحکام کے لیے خطرہ

یہی صورتحال برقراررہی تو بحرانوں کے شکار ملک کے لیے گیس کی خریداری دن بدن مشکل ترہوتی جائے گی جبکہ ملک کے اندر قیمتوں میں اضافے سے گیس عام شہریوں کی پہنچ سے باہر نکل جائے گی.ماہرین

لندن(مانیٹرنگ ڈیسک ) معاشی ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ پاکستان کا درآمدی ایل این جی پر بڑھتا ہوا انحصار ملک کی انرجی سکیورٹی اور مالیاتی استحکام کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے جس کا اظہار ایک عالمی ادارے انسٹیٹیوٹ فار انرجی اکنامکس اینڈ فنانشنل انیلیسز (آئی ای ای ایف اے) کی حال ہی میں شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں بھی کیا ہے.

پاکستان میں درآمدی ایل این جی پر زیادہ انحصار ایسے وقت میں سامنے آ رہا ہے جب یوکرین اور روس کے درمیان تنازع کی وجہ سے گیس کی قیمتیں عالمی منڈی میں بلند ترین سطح پر موجود ہیں اور اس کا منفی اثر پاکستان جیسے ملکوں پر پڑ رہا ہے جو توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدی گیس پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں پاکستان میں ایل این جی بیرون ملک سے کچھ طویل مدتی معاہدوں کے تحت منگوائی جا رہی جو پاکستان مسلم لیگ نواز اور تحریک انصاف کے سابقہ ادوار میں کیے گئے ہیں.
برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے ”سپاٹ کارگو“ یعنی ایل این جی کی موجودہ عالمی مارکیٹ میں قیمت پر منگوائے جاتے ہیں جو طویل مدتی معاہدوں کے مقابلے میں اس وقت بہت زیادہ ہے پاکستان نے جولائی کے مہینے کے لیے درآمدی ایل این جی کی خریداری کے لیے چار ٹینڈر جاری کیے ہیں جن کا ملک میں گیس کی طلب و رسد کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو ختم کرنا ہے.
پاکستان چار طویل مدتی معاہدوں کے تحت پہلے سے ایل این جی کی درآمد کر رہا ہے تاہم ملک میں گیس کی قلت کے پیش نظر حکومت نے جولائی کے مہینے کے لیے مزید چار کارگو منگوانے کا فیصلہ کرتے ہوئے یہ ٹینڈر جاری کیے ہیں پاکستان کی جانب سے ملک میں درآمدی ایل این جی گیس کی قلت کو پورا کرنے کے لیے منگوائی جا رہی ہے تاہم دوسری جانب دنیا میں ایل این جی کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کی وجہ سے ایل این جی کی یہ درآمد ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ ثابت ہو رہی ہے.
ادھرروس اور یوکرین تنازع نے ایک جانب تیل و کوئلے کی قیمتوں کو بلند ترین سطح پر پہنچا دیا ہے تو اس کا اثر گیس کی قیمتوں پر بھی پڑا جو دنیا بھر میں اس وقت بلند سطح پر موجود ہیں پاکستان میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت گیس کی مقامی پیداوار 3000 سے 4000 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جب کہ ملک میں اس کی ضرورت 6000 سے 7000 ایم ایم سی ایف ڈی ہے. مقامی پیداوار اور کھپت میں پیدا ہونے والے اس فرق کو درآمدی ایل این جی سے پورا کیا جاتا ہے، جس کے لیے پاکستان نے چار طویل مدتی معاہدے کیے جس میں قطر سے ایل این جی درآمد کے ساتھ دو کمپنیاں ”ای این آئی“ اور ”گنور“ پاکستان کو گیس فراہم کرتی ہیں پاکستان میں بجلی بنانے والے پلانٹس 35 فیصد گیس استعمال کرتے ہیں ، 21 فیصد گیس کا گھریلو استعمال ہے، صعنتی شعبے میں اس کا استعمال 17 فیصد اور فرٹیلائزر کا شعبہ 16 فیصد گیس استعمال کرتا ہے.
پاکستان نے مقامی سطح پر گیس کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 2015 میں گیس درآمد کرنا شروع کی اور پہلے سال میں جتنی گیس درآمد کی گئی تھی اس میں آئندہ آنے والے برسوں میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے پاکستان میں درآمد کی جانے والی گیس اور اس پر خرچ ہونے والے زرمبادلہ کے اگر موجودہ مالی سال کے پہلے گیارہ مہینے کے اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو اس میں گذشتہ سال کے ان گیارہ مہینوں میں 86 فیصد سے زائد اضافہ ہو چکا ہے.
پاکستان نے گذشتہ مالی سال جولائی سے مئی کے مہینوں میں 2.3 ارب ڈالر کی گیس درآمد کی تھی جو موجودہ مالی سال کے پہلے گیارہ مہینوں میں بڑھ کر 4.2 ارب ڈالر ہو چکی ہے صرف مئی کے مہینے میں درامدی گیس کا بل 58 کروڑ 3 لاکھ ڈالر تھا جو گذشتہ مئی میں 27 کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالر تھا ماہرین کا کہنا ہے اگر یہی صورتحال برقراررہی تو بحرانوں کے شکار ملک کے لیے گیس کی خریداری دن بدن مشکل ترہوتی جائے گی جبکہ ملک کے اندر قیمتوں میں اضافے سے گیس عام شہریوں کی پہنچ سے باہر نکل جائے گی.

اپنا تبصرہ بھیجیں