آم کے شوقین افراد کےلیےبری خبر

آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے مطابق رواں سیزن موسمیاتی اثرات اور بلند درجہ حرارت کی وجہ سے آم کی پیداوار کو نقصان پہنچا ہے۔پاکستان میں آم کی اوسط پیداوار 18لاکھ میٹرک ٹن ہے جو رواں سیزن 50فیصد کم ہو کر9 لاکھ میٹرک ٹن تک محدود رہنے کا خدشہ ہے۔
آل پاکستان پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سرپرست وحید احمد کے مطابق رواں سیزن مارچ کے وسط میں آم کے پیداواری علاقوں میں اوسط درجہ حرارت 37 سے 42 ڈگری سینٹی گریڈ رہا جو گزشتہ سیزن اوسط 34ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا تھا۔
درجہ حرارت میں اچانک اضافے سے آم کی پیداوار کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ آب پاشی کے مسائل،نہروں کی بندش کی وجہ سے پانی کی قلت، بجلی کی لوڈشیڈنگ اورسیزن کے دوران ڈیزل کی قلت نے آم کی فصل کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔
وحید احمد کے مطابق رواں سیزن آم کی پیداوار اور ایکسپورٹ کو تاریخ کے سب سے مشکل سیزن کا سامنا ہے۔ روپے کی قدر میں کمی اور بجلی گیس کے ساتھ لیبر کی لاگت بڑھنے سے آم کی پراسیسنگ کی لاگت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔پیکجنگ میٹریل گزشتہ سیزن سے 30فیصد تک مہنگا ہوا ہے جس سے آم کے ایکسپورٹرز کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں مسابقت مشکل ہوگئی ہے۔
وحید احمد کا کہنا تھا کہ سمندری کرایوں میں نمایاں اضافے نے پاکستان کے آم کے لیے مسابقت کو دشواربنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گزشتہ سال خلیجی ممالک کے لیے سمندری کرائے 1900ڈالر فی کنٹینر تھے جو اس سال 2800ڈالر سے 3000 ڈالر فی کنٹینر تک پہنچ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی فضائی کرایوں میں بھی اضافہ کا خدشہ ہے جس سے آم کی ترسیل کی لاگت غیرمعمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔
موسمیاتی اثرات ، تیز ہواﺅں اور آندھی کے ساتھ بارش کی صورت میں آم کی فصل کے نقصانات آنے والے مہینوں میں مزید بڑھ سکتے ہیں۔انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایکسپورٹ کی لاگت کو کم کرنے اور پاکستانی آم کے لیے انٹرنیشنل مارکیٹ میں مسابقت کو آسان بنانے کے لیے سمندری اور فضائی کرایوں میں 20فیصد سبسڈی کی فراہمی،پی آئی اے کے فریٹ چارجز میں رعایت دی جائے۔
وحید احمد کے مطابق آم کی ایکسپورٹ کے اس مشکل ترین سیزن کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آم کی ایکسپورٹ سے متعلقہ سرکاری ادارے اور اتھارٹیز بشمول پورٹ اور ایئرپورٹ اتھارٹیز،کسٹم حکام، پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ اور دیگر ادارے تعاون فراہم کریں تاکہ پاکستان کے نازک معاشی حالات میں زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ کے حصول کو یقینی بنایا جاسکے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں