سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

اس فیصلے کے اثرات مستقبل پر پڑیں گے‘ اس لیے سب کو سن کر فیصلہ دیں گے‘ عدالت اس پر کل پھر دن 12 بجے سماعت کرے گی ۔ عدالت عظمیٰ کے ریمارکس

اسلام آباد ( نیوز ڈیسک ) سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی ، عدالت عظمیٰ نے اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ اس فیصلے کے اثرات مستقبل پر پڑیں گے‘ اس لیے سب کو سن کر فیصلہ دیں گے۔ تفصیلات کے مطابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ پر سپریم کورٹ آف پاکستان میں از خود نوٹس پر سماعت ہو ئی ، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت کئی سیاستدان اور وکلا کی بڑہ تعداد کمرہ عدالت میں موجود رہی جب کہ ایڈووکیٹ نعیم بخاری اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے عدالت میں پیش ہوئے ، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بنچ اس مقدمے کی سماعت کی ، دوران سماعت اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ہم درخواست گزاروں کو پہلے سننا چاہتے ہیں ، اگر کوئی اسٹیٹمنٹ دینا چاہتا ہے تو دے ، ہم آج صرف ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ سے متعلق سماعت کررہے ہیں ، عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے درخواست پرآج ہی سماعت کریں گے اور ہم آج ہی کوئی حکم جاری کریں گے۔

سماعت کے آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے 21 مارچ کے 2022ء کے فیصلے کا حوالہ دینا چاہتا ہوں ، الیکشن کے لیے تیار ہیں ، سارا مسئلہ جلدی الیکشن کا تھا ، صدارتی ریفرنس کو موجودہ از خود نوٹس کے ساتھ سنا جائے ، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے سامنے سیاسی باتیں نہ کریں۔ دوران سماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے مقدمے کی سماعت کے لیے فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کی ، اس کے جواب میں چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے استفسار کیا کہ آپ بتانا پسند کریں گے کون سے آئینی سوالات پر فل کورٹ کی ضرورت ہے؟ فل کورٹ کی وجہ سے تمام دیگر مقدمات متاثر ہوتے ہیں، گزشتہ سال بھی فل کورٹ کی وجہ سے 10 ہزار مقدمات کا اضافہ ہوا ، اگر آپ کو بینچ میں کسی پر اعتراض ہے تو بتا دیں ہم اٹھ جاتے ہیں ، معاملے پر آج ہی مناسب حکم جاری کریں گے ، جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا اس کی آئینی حیثیت کا جائزہ لینا ہے۔
سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے دریافت کیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی اجازت اسپیکر دیتا ہے یا یہ اجازت ایوان کی طرف سے دی جاتی ہے؟ اس کے جواب میں فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ ہاؤس میں قرار داد پیش کرنے کی اسپیکر اجازت دیتا ہے ، قرار داد پیش ہونے کے بعد ہاؤس اجازت دیتا ہے ، عدم اعتماد پر بحث کی اجازت ہی نہیں دی گئی ، اجلاس شروع ہوا تو فواد چوہدری نے آرٹیکل 5 کے تحت خط کے حوالے سوال کیا ، فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ جاری کر دی۔
اس دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ نے استفسار کیا کہ 3 اپریل کو اجلاس تحریک پر بحث کا موقع دینے کی بجائے ووٹنگ کے لیے مقرر کیا گیا؟ اسپیکر نے تحریک عدم اعتماد پر بحث کے لیے کون سا دن دیا؟ تحریک عدم اعتماد پر بغیر بحث ووٹنگ کا دن کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اس کے جواب میں فاروق ایچ نائیک نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ عدالت میں پیش کی اور بتایا کہ 27 مارچ کو عمران خان نے جلسہ میں غیر ملکی خط لہرایا اور الزام لگایا کہ اپوزیشن غیرملکی کی سازش کا حصہ ہے ، 31 مارچ کو نیشنل سکیورٹی کونسل اور کابینہ کا اجلاس ہوا ، 31 مارچ کو ہی عدم اعتماد پر بحث ہونی تھی لیکن اجلاس 3 اپریل تک ملتوی کردیا گیا ، 31 مارچ کو رولنگ میں بھی تحریک پر بحث کا نہیں کہا گیا۔
اس کے بعد چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ قومی اسمبلی اجلاس میں 31 مارچ کو بحث ہونا تھی ، اگر تین اپریل کو بحث ہوتی تو 4 اپریل کو بھی ووٹنگ ہو سکتی تھی؟ فاروق نائیک نے کہا کہ فواد چوہدری کے پوائنٹ آف آرڈر پر بحث بھی ہو سکتی تھی، اسپیکر اسد قیصر کو معلوم تھا کہ غیر قانونی قدم ہے اس لیے وہ موجود نہیں تھے ، ایوان میں اگر کوئی سوال اٹھتا ہے تو اس پر ایوان میں بحث لازمی ہے۔
یہاں جسٹس منیب اختر نے کہا کہ فواد چوہدری کے سوال پر بحث نہ کرانا پروسیجرل غلطی ہو سکتی ہے۔ اس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ نہیں یہ پروسیجرل ایشو نہیں ہے۔ اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ ڈپٹی اسپیکر نے کس رول کے تحت رولنگ جاری کی ہے؟ ڈپٹی اسپیکر رولز کے تحت اسپیکر کی عدم موجودگی میں اجلاس کو چلاتا ہے ، کیا ڈپٹی اسپیکر کو رولز کے تحت ایسی رولنگ دینے کا اختیار ہے؟ میرے خیال میں ڈپٹی اسپیکر کو ایسی رولنگ دینے کا اختیار نہیں تھا ، رول 28 کے تحت تو اسپیکر کو رولنگ دینے کا اختیار ہے ، اسپیکر رولنگ ایوان میں یا اپنے آفس میں فائل پر دے سکتا ہے ، کیا اسپیکر اپنی رولنگ واپس لے سکتا ہے؟۔
اس سوال کے جواب میں فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ رولنگ واپس لینے کے حوالے سے اسمبلی رولز خاموش ہیں ، ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ سے ارکان اسمبلی کو ہی غدار قرار دے دیا ، ایوان میں ووٹنگ کے لیے اپوزیشن کے 198 ارکان موجود تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کس طرح غیرآئینی ہے یہ بتائیں ، اسپیکر کی طرف سے ارکان اسمبلی کو غدار قرار دینے کی رولنگ غیر قانونی کیسے ہوئی؟ اس پر فاروق نائیک نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر صرف اجلاس کی صدارت کر رہے تھے ، قائم مقام اسپیکر کے لیے باقاعدہ نوٹی فکیشن جاری کرنا ہوتا ہے ، جس خط کا ذکر ہوا وہ اسمبلی میں پیش نہیں کیا گیا۔
اس پر چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ آپ کا نقطہ ہے عدم اعتماد پر ووٹنگ فکس تھی، آپ کا کہنا ہے ووٹنگ فکس ہونے کے بعد عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی، ہمیں یہ پوائنٹ نوٹ کرنے دیں ، اسپیکر نے رولنگ میں آرٹیکل 5 کا سہارا لیا ، اسپیکر کس اسٹیج پر تحریک عدم اعتماد کی قانونی حیثیت کا تعین کر سکتا ہے؟ پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تحریک 20 فیصد سے کم ارکان کی جانب سے پیش کرنے پر ہی مسترد ہو سکتی ہے ، اسپیکر کسی صورت تحریک عدم اعتماد کو بدنیتی پر مبنی قرار نہیں دے سکتا ، آرٹیکل 5 کے سہارے بھی تحریک عدم اعتماد مسترد نہیں ہو سکتی ، تحریک عدم اعتماد پر رولنگ آئین کے خلاف ہے ، تحریک عدم اعتماد منظور یا مسترد کرنے کا اختیار ایوان کا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی عدالتی فیصلہ دیں جس میں عدالت نے آرٹیکل 69 کی تشریح کی ہو؟ فاروق نائیک نے دلائل دیے کہ پارلیمانی کارروائی غیر آئینی اور بدنیتی پر مبنی ہو تو چیلنج بھی ہو سکتی اور کالعدم بھی ہوسکتی ہے، بدنیتی کی بنیاد پر آرٹیکل 254 کا سہارا نہیں لیا جا سکتا ، رولنگ دینے سے پہلے اپوزیشن کا موقف نہیں سنا گیا ، تمام اپوزیشن ارکان کو غداری کا ملزم بنا دیا گیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ میں پارلیمانی کمیٹی کا بھی ذکر ہے ، اپوزیشن نے جان بوجھ کر کمیٹی میں شرکت نہیں کی ، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی میں سارا معاملہ رکھا گیا تھا ، اس سوال کا جواب تمام اپوزیشن جماعتوں کے وکلاء نے دینا ہے۔ اس کے بعد فاروق ایچ نائیک نے اصرار کیا کہ مقدمہ کو آج ہی مکمل کریں ، اس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ دوسرے فریق کو سننا بھی ضروری ہے تاکہ فیصلہ ہو جائے، آج ہی سن کر فیصلہ دینا ممکن نہیں ، اس کے ساتھ ہی عدالت نے سماعت کل دوپہر 12 بجے تک ملتوی کردی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں