روسی وامریکی صدورکاٹیلی فونک رابطہ،یوکرائن کے معاملے پر ایک دوسرے کو دھمکیاں

ْ50منٹ تک جاری گفتگومیں دونوں صدورنے اپنے اختلافات بھلاکریوکرائن بحران پر کھل کر بات چیت کی

ماسکو/واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) روس اور یوکرین کے درمیان کشیدگی کے معاملے پر امریکی صدر بائیڈن اور روسی ہم منصب ولادمیر پیوٹن کے درمیان ٹیلفونک رابطہ ہواہے،اس موقع پر امریکی صدربائیڈن نے روسی ہم منصب پوٹن کو خبردار کیا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن کے خلاف مزید فوجی کارروائی کی توروس پر نئی پابندیاں عائد بھی کی جا سکتی ہیں جس کے جواب میں پوٹن نے کہا ہے کہ ایسا کوئی بھی قدم باہمی تعلقات کو ختم کرنے کا موجب بن سکتا ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق جمعہ کوایک بیان میں وائٹ ہاوس کے ترجمان جین ساکی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ 50منٹ تک ہونے والی گفتگو میں صدر جو بائیڈن نے اپنے روسی ہم منصب سے کہا کہ امریکا یوکرین پر کسی بھی جارحیت کا بھر پور جواب دے گا۔
انہوں نے واضح کیاکہ یوکرائن تنازعے پر 10 جنوری کو جنیوا میں دونوں ملکوں کے عہدیداران کے درمیان ہونے والے مذاکرات سے قبل صدر بائیڈن اور صدر پوٹن کے درمیان رواں ماہ ٹیلی فون پر اس نوعیت کی یہ دوسری با ت چیت تھی۔

انہوں نے کہاکہ دونوں صدور نے یوکرائن کے تنازعے پر کھل کر بات چیت کی۔ یوکرائن کی سرحد پر روسی افواج کی تعداد میں اضافے کی وجہ سے یہ بحران شدہد ہوتا جا رہا ہے تاہم صدر بائیڈن اور پوٹن نے کھل کر بات چیت کی اور اپنے اختلافات کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔وائٹ ہائوس کے ترجمان جین ساکی نے کہا کہ صدر بائیڈن نے واضح کر دیا ہے کہ اگر روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو امریکا اور اس کے اتحادی اور شراکت دار ماسکو کو فیصلہ کن جواب دیں گے۔
انہوں نے مزید کہاکہ صدر بائیڈن نے اس بات کا اعاد ہ کیا کہ ان مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ بات چیت کشیدہ کے بجائے پرامن ماحول میں ہو۔دونوں ملکوں کے اعلی حکام یوکرائن کے تنازعے پر دس جنوری کو جنیوا میں بات چیت کرنے والے ہیں۔ترجمان وائٹ ہائوس نے کہا کہ دونوں رہنماں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ کئی ایسے شعبے ہیں، جہاں دونوں فریق بامعنی طور پر پیش رفت کر سکتے ہیں تاہم ایسے اختلافات بھی موجود ہیں جنہیں حل کرنا ممکن نہیں۔
مثلا روس نے واضح کیا کہ وہ ایک تحریری معاہدہ چاہتا ہے کہ یوکرائن کو کبھی بھی نیٹو میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور نہ ہی نیٹو کے اتحادی ممالک وہاں اپنے ہتھیار نصب کریں گے۔بائیڈن انتظامیہ نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا ہے۔ایک امریکی اہلکار نے بتایاکہ امریکا یوکرائن کو دفاعی سکیورٹی کے حوالے سے امداد فراہم کر رہا ہے اور جارحانہ حملہ کرنے والے ہتھیار نہیں دے رہا ہے۔
امریکی صدر نے یوکرین میں پرتشدد صورت حال میں کمی لانے کا مطالبہ کیا اور سفارت کاری کے ذریعے مسئلے کے حل کے لیے روس کی حمایت کا اعادہ بھی کیا۔دوسری جانب صدر پیوٹن نے امریکی صدر کو خبردار کیا کہ روس پر معاشی پابندیاں سنگین غلطی ہو گی اور اس سے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔روسی صدارتی محل کریملن نے سرحدی سکیورٹی کی ضمانت کے حوالے سے اپنا موقف سخت کر دیا اور اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے ہائپر سونک میزائلوں کے تجربات بھی کیے ہیں۔
کریملن میں خارجہ پالیسی کے مشیر یوری اوشاکوف نے صحافیوں سے بات چیت کے دوران یوکرائن پر حملے کے ردعمل کے طور پر اقتصادی پابندیوں کی واشنگٹن کی بار بار دھمکیوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ ایک سنگین غلطی ہو گی۔ ہمیں امید ہے کہ ایسا نہیں ہو گا۔اوشاکوف نے مزید کہا کہ روس جنوری میں جنیوا میں ہونے والی بات چیت کے ٹھوس نتیجے کے لیے پر امید ہے جب کہ وائٹ ہاس نے کہا کہ وہ بھی چاہتا ہے کہ ماسکو یوکرائن کی سرحد پر روس کی بڑی فوجی موجودگی سے پیدا ہونے والی کشیدگی میں کمی کے لیے کارروائی کرے۔
دونوں رہنمائوں کے درمیان ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد جاری ایک بیان میں کریملن نے زور دیا کہ صدر بائیڈن نے پوٹن کو بتایا کہ یوکرائن میں امریکی ہتھیاروں کو نصب نہیں کیا جائے گا۔ تاہم وائٹ ہاس کا کہنا ہے کہ بائیڈن نے صرف موجودہ پالیسی کی توثیق کی ہے۔جنیوا میں 10 جنوری کو ہونے والی بات چیت کے دوران روس کے مطالبات پر تبادلہ خیال کیا جائے گا لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں کہ بحران کو کم کرنے کے بدلے میں بائیڈن پوٹن کو کیا پیشکش کرنے کو تیار ہوں گے۔دریں اثنا نیٹو کے اہم ارکان نے واضح کیا کہ مستقبل قریب میں اتحاد کو وسعت دینے کی کوئی خواہش نہیں کیونکہ مذاکرات کی ناکامی کی صورت میں یہ روس کو سابقہ سوویت ریاست پر حملہ کرنے کا بہانہ فراہم کرے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں