شجرہ نسب اور محکمہ مال…………؟

شجرہِ نسب کو کیسے تلاش کر سکتے ہیں ؟ محکمہ مال اس کا بہترین حل ہے. اگر آپ کو اپنا شجرہ نسب معلوم نہیں ہے تو آپ اپنے آباؤ اجداد کی زمین کا خسرہ نمبر لے کر (اگر خسرہ نمبر نہیں معلوم تو موضع اور یونین کونسل کا بتا کر بھی ریکارڈ حاصل کر سکتا ہے ) جو شخص بھی اپنا درست شجرہ نسب تلاش کرنا چاہتا تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ضلع یا صوبائی محکمہ مال آفس میں جائے یہ آفس ضلعی کچہریوں اور صوبائی وزارت مال آفس میں ہوتا ہے اور جہاں قدیم ریکارڈ ہوتا ہے اس کو محافظ خانہ کہا جاتا ہے ۔ محافظ خانہ سے اپنا 1872ء / 1880ء یا 1905ء 1946ء کا ریکارڈ (بندوبست) نکلوائیں ۔1872ء / 1880ء 1905ء یا 1946ء میں انگریز نے جب مردم شماری کی تو انگریزوں کو یہاں کی کسی قوم قبیلے سے کوئی غرض نہ تھی ہر ایک گاؤں میں جرگہ بیٹھتا جس میں پٹواری، گرداور، نمبردار ذیلدار ، چوکیدار اس جرگہ میں پورے گاؤں کو بلاتا تھا۔ ہر ایک خاندان کا اندراج جب بندوبست میں کیا جاتا تو اس سے اس کی قوم پوچھی جاتی اور وہ جب اپنی قوم بتاتا تو پھر اونچی آواز میں گاؤں والوں سے تصدیق کی جاتی اسکے بعد اسکی قوم درج ہوتی۔ یاد رہے اس وقت کوئی شخص اپنی قوم تبدیل نہیں کرسکتا تھا بلکہ جو قوم ہوتی وہی لکھواتا تھا۔. مدےخیل یوسفزئی ، سواتی ،ترک ، ڈھونڈ ،کشمیری سراڑہ ،ملیار، قریشی ، سید ، اعوان ،جاٹ، ارائیں، راجپوت ، سدھن ،ٹوانہ، بلوچ، وٹو، کانجو، گکھڑ ، گجر ، مغل ، کرلاڑل ، خٹک ، تنولی ، عباسی ، جدون ، دلزاک ، ترین وغیرہ اور دیگر بے شمار اقوام ان بندوبست میں درج ہیں اور آپ اپنے ضلع کے محکمہ مال میں جا کر اس بات کی تصدیق بھی کر سکتے ہیں اور اپنا شجرہ نسب وصول بھی کرسکتے ہیں ۔وہی آپکے پاس آپکی قوم کا ثبوت ہے خواہ آپ کسی بھی قوم میں سے ہوں اگر آپ کے بزرگوں کے پاس زمین تھی تو ان کا شجرہ نسب ضرور درج ہو گا ۔ہندوستان میں سرکاری سطح پر زمین کےانتظام و انصرام کی تاریخ صدیوں پرانی ہے ، جو شیر شاہ سوری سے لے کر اکبر اعظم اور انگریز سرکار سے لے کر آج کے دور تک پھیلی ہوئی ہے۔

پنجاب میں انگریز حکمرانوں نے محکمہ مال کا موجودہ نظام 1848ء میں متعارف کرایا ۔محکمہ مال کے ریکارڈ کی ابتدائی تیاری کے وقت ہر گاؤں کو ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ قرار دے کر اس کی تفصیل، اس گاؤں کے نام کی وجہ ، اس کے پہلے آباد کرنے والے لوگوں کے نام، قومیت، عادات و خصائل،انکے حقوق ملکیت حاصل کرنے کی تفصیل ، رسم و رواج ، مشترکہ مفادات کے حل کی شرائط اور حکومت کے ساتھ گاؤں کے معاملات طے کرنے جیسے قانون کا تذکرہ، زمینداروں ، زراعت پیشہ ، غیر زراعت پیشہ دست کاروں ، پیش اماموں تک کے حقوق و فرائض انہیں فصلوں کی کاشت کےوقت شرح ادائیگی اجناس اور پھر نمبردار، چوکیدار کے فرائض و ذمہ داریاں ، حتیٰ کہ گاؤں کے جملہ معاملات کے لئے دیہی دستور کے طور پر دستاویز شرط واجب العرض تحریر ہوئیں جو آج بھی ریونیو ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ جب محکمہ کا آغاز ہوا تو سب سے پہلے زمین کی پیمائش کی گئی۔ سابق پنجاب کے ضلع گڑگانواں ،کرنال وغیرہ سے بدون مشینری و جدید آلات پیمائش زمین شروع کرکے ضلع اٹک دریائے سندھ تک اس احتیاط اور عرق ریزی سے کی گئی کہ درمیان میں تمام ندی نالے ،دریا، رستے ، جنگل ، پہاڑ ، کھائیاں ، مزروعہ ، بنجر، آبادیاں وغیرہ ماپ کر پیمائش کا اندراج ہوا۔ ہر گاؤں کی حدود کے اندر زمین کے جس قدر ٹکڑے ، جس شکل میں موقع پر موجود تھے ان کو نمبر خسرہ ،کیلہ الاٹ کئے گئے اور پھر ہر نمبر کے گرد جملہ اطراف میں پیمائش ’’کرم‘‘ (ساڑھے 5فٹ فی کرم) کے حساب سے درج ہوئی۔ اس پیمائش کو ریکارڈ بنانے کے لئے ہر گاؤں کی ایک اہم دستاویز فیلڈ بک تیار ہوئی۔ جب ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ (حد موضع) قائم ہو گئی تو اس میں نمبر خسرہ ترتیب وار درج کر کے ہر نمبر خسرہ کی پیمائش چہار اطراف جو کرم کے حساب سے برآمد ہوئی تھی، درج کرکے اس کا رقبہ مساحت کے فارمولا اور اصولوں کے تحت وضع کرکے اندراج ہوئے۔ اس کتاب میں ملکیتی نمبر خسرہ کے علاوہ گاؤں میں موجود شاملات، سڑکیں ، راستے عام ، قبرستان ، بن ، روہڑ وغیرہ جملہ اراضی کو بھی نمبر خسرہ الاٹ کرکے ان کی پیمائش تحریر کرکے الگ الگ رقبہ برآمدہ کا اندراج کیا گیا۔ اکثر خسرہ جات کے وتر، عمود کے اندراج برائے صحت رقبہ بھی درج ہوئے پھر اسی حساب سے یہ رقبہ بصورت مرلہ ،کنال ،ایکڑ، مربع ، کیلہ درج ہوا اور گاؤں ، تحصیل ، ضلع اور صوبہ جات کا کل رقبہ اخذ ہوا۔ اس دستاویز کی تیاری کے بعد اس کی سو فیصد صحت پڑتال کا کام تحصیلدار، اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور دیگر افسران بالا کی جانب سے ہوا تھا۔ اس کا نقشہ مساوی ہائے کی صورت آج بھی متعلقہ تحصیل آفس اور ضلعی محافظ خانہ اور محکمہ مال کی وزارت میں موجود ہے، جس کی مدد سے پٹواری کپڑے پر نقشہ تیار کرکے اپنے دفتر میں رکھتا ہے۔

جب نیا بندوبست اراضی ہوتا ہے تو نئی فیلڈ بک تیار ہوتی ہے۔ اس پیمائش کے بعد ہر ’’ریونیو اسٹیٹ‘‘ کے مالکان قرار پانے والوں کے نام درج ہوتے ہیں ۔ اور ان لوگوں کا شجرہ نسب تیار کیا گیا اور جس حد تک پشت مالکان کے نام صحیح معلوم ہو سکے ، ان سے اس وقت کے مالکان کا نسب ملا کر اس دستاویز کو مثالی بنایا گیا ، جو آج بھی اتنی موثر ہے کہ کوٸی بھی اپنا شجرہ یا قوم تبدیل کرنے کی کوشش کرے مگر کاغذات مال کا ریکارڈ کسی مصلحت سے کام نہیں لیتا تحصیل یا ضلعی محافظ خانہ تک رسائی کی دیر ہے ،یہ ریکارڈ پردادا کے بھی پردادا یعنی 12 پیڑیوں کی قوم ، کسب اور سماجی حیثیت نکال کر سامنے رکھ دے گا۔ بہرحال یہ موضوع سخن نہیں ۔ جوں جوں مورث فوت ہوتے گئے، ان کے وارثوں کے نام شجرے کا حصہ بنتے گئے۔ یہ دستاویز جملہ معاملات میں آج بھی اتھارٹی کی حیثیت رکھتی ہے اور وراثتی مقدمات میں بطور ثبوت پیش ہوتی ہے ۔ نیز اس کے ذریعے مالکان اپنی کئی پشتوں کے ناموں سے آگاہ ہوتے ہیں. شجرہ نسب تیار ہونے کے بعد مالکان کا ریکارڈ ملکیت جسے جمع بندی کہتے ہیں اور اب اس کا نام رجسٹر حقداران زمین تبدیل ہوا ہے، وجود میں آیا ۔خانہ ملکیت میں مالکان اور خانہ کاشت میں کاشتکاروں کے نام ،نمبر کھیوٹ، کھتونی ، خسرہ ،کیلہ، مربعہ اور ہر ایک کا حصہ تعدادی اندراج ہوا۔ ہر چار سال بعد اس دوران منظور ہونے والے انتقالات بیعہ ، رہن ، ہبہ، تبادلہ ، وراثت وغیرہ کا عمل کرکے اور گزشتہ چار سال کی تبدیلیاں از قسم حقوق ملکیت، کاشت کار کی تبدیلی ، رجسٹر گرداوری کی تبدیلی یا زمین کی قسم کی تبدیلی وغیرہ کا اندراج کرکے نیا رجسٹر حقداران تیار ہوتا ہے اور اس کی ایک نقل ضلعی محافظ خانہ میں داخل ہوتی ہے. اس دستاویز کے نئے اندراج کے لئے انتہائی منظم اور اعلیٰ طریقہ کار موجود ہے. اس کی تیاری میں جہاں حلقہ پٹواری کی ذمہ داری مسلمہ ہے ،وہاں گرداور اور حلقہ آفیسر ریونیو سو فیصد پڑتال کرکے نقائص برآمدہ کی صحت کے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ ضابطے کے مطابق افسران مذکور کا متعلقہ گاؤں میں جا کر مالکان کی موجودگی میں اس کے اندراج کا پڑھ کر سنانا اور اغلاط کی فہرست جاری کرنا ضروری ہے، جن کی درستی کا پٹواری ذمہ دار ہوتا ہے۔ آخر میں تحصیلدار سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے کہ اب یہ غلطیوں سے مبرا ہے۔ رجسٹر حقداران زمین کے ساتھ رجسٹر گرداوری بھی تیار ہوتا ہے، جس میں چار سال کے لئے آٹھ فصلات کا اندراج کیا جاتا ہے۔ مارچ میں فصل ربیع اور اکتوبر میں فصل خریف مطابق ہر نمبر خسرہ، کیلہ موقع پر جا کر پٹواری مالکان و کاشتکاران کی موجودگی میں فصل کاشتہ و نام مالک ،حصہ بقدر اراضی اور نام کاشتکار کا اندراج کرتا ہے۔ ہر فصل کے اختتام پرایک گوشوارہ فصلات برآمدہ تیار کرکے اس کتاب کے آخر میں درج کیا جاتا ہے کہ کون سی فصل کتنے ایکڑ سے کتنی برآمد ہوئی۔ اس کی نقل تحصیل کے علاوہ بورڈ آف ریونیو کو بھجوائی جاتی ہے ، جس سے صوبہ اور ملک کی آئندہ برآمدہ اجناس کا تخمینہ لگایا جاتا ہے۔ اس رجسٹر میں نہری اور بارانی علاقوں کی موقع کی مناسبت سے اقسام زمین نہری، ہیل، میرا، رکڑ ، بارانی اول ، بنجر ، کھندر وغیرہ کے علاوہ روہڑ ، بن ، سڑکیں، رستہ جات ، قبرستان ، عمارات اور مساجد وغیرہ بھی تحریر کی جاتی ہیں۔

یہ رجسٹر ریونیو کی اہم دستاویز ہے اور مطابق قانون اس کی جانچ پڑتال گرداور سے لے کر ڈپٹی کمشنر تک موقع پر کر کے نتائج تحریر کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں رجسٹر انتقالات میں جائیداد منتقلہ کا اندراج کیا جاتا ہے۔ اس میں نام مالک ، جس کے نام جائیداد منتقل ہوئی، گواہان ، نمبر کھیوٹ ، کھتونی، خسرہ، کیلہ، مربعہ حصہ منتقلہ ، زر ثمن ، پٹواری مفصل تحریر کرتا ہے ،گرداور جملہ کوائف تصدیق کرتا ہے اور ریونیو آفیسر تحصیلدار بوقت دورہ پتی داران، نمبرداران کی موجودگی میں تصدیق کر کے فیصلہ کرتا ہے ۔ پرت پٹوار پر حکم لکھتا ہے اور پرت سرکار برائے داخلہ تحصیل دفتر ہمراہ لے جاتا ہے ۔ کاغذات مال متذکرہ کے علاوہ بھی کئی دستاویزات ہوتی ہیں، جن سے جملہ ریکارڈ آپس میں مطابقت کرتا ہے اور غلطی کا شائبہ نہیں رہتا۔ جو کاغذات ہر وقت استعمال میں رہتے ہیں ان کا مختصر تذکرہ کیا گیا ہے ،ورنہ پٹواری کے پاس ایک لال کتاب بھی ہوتی ہے،جس میں گاؤں کے جملہ کوائف درج ہوتے ہیں جیسے اس گاؤں کا کل رقبہ،مزروعہ کاشتہ،غیر مزروعہ بنجر، فصلات کاشتہ،مردم شماری کا اندراج ، مال شماری جس میں مویشی ہر قسم اور تعدادی نر، مادہ ، مرغیاں ،گدھے ،گھوڑے بھینس،بیل،گائے،بچھڑے غرض ہر چیز کا اندراج ہوتا ہے ۔

جس طرح یہ محکمہ بنا اور اس کے قواعدوضوابط بنائے گئے اور متعلقہ اہلکاران و افسران کی ذمہ داریاں مقرر ہوئی تھیں، اگر ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے تو اس سے بہتر نظام زمین اور کوئی نہیں۔ یہ نظام انگریز کے دور میں بہترین اور 1964ء یا 1965ء تک نسبتاً بہتر چلتا رہا… لہذا زمین ریکارڑ سےبہترین شجرہ نسب کا کوئی اور طریقہ نہیں ہو سکتا..

اپنا تبصرہ بھیجیں