تازہ ترین قومی خاندان اور صحت سروے میں دو سال کی تحقیق کے بعد فی ہزار مردوں پر ایک ہزار 20 خواتین ریکارڈ کی گئیں
نئی دہلی (انٹرنیشنل ڈیسک) حکومتی اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں پہلی بار ریکارڈ پر مردوں کے مقابلے خواتین کی تعداد زیادہ ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق دنیا کے دوسری سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں شرح پیدائش میں بھی کمی آئی ہے۔انڈیا میں تاریخی طور پر والدین نے بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح دی ہے، جنہیں شادی کے جہیز کی روایت کی وجہ سے اکثر بوجھ اور زیادہ خرچے کا سبب سمجھا جاتا ہے۔
انڈیا میں جنس کی بنیاد پر اسقاط حمل کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا ہے لیکن یہ عمل برقرار ہے، اور قومی آبادی کے اعداد و شمار نے مستقل طور پر دنیا میں عورتوں کے مقابلے میں مردوں کے زیادہ تناسب کو ریکارڈ کرتا رہا ہے۔تاہم وزارت صحت کی طرف سے جاری کردہ تازہ ترین قومی خاندان اور صحت سروے میں دو سال کی تحقیق کے بعد فی ہزار مردوں پر ایک ہزار 20 خواتین ریکارڈ کی گئیں۔
سنہ 1876 کی پہلی قومی مردم شماری کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب کسی بھی آبادی کے حکومتی سروے میں انڈیا میں مردوں سے زیادہ خواتین کو دکھایا گیا ہے۔پاپولیشن فاؤنڈیشن آف انڈیا (پی ایف آئی) کے ہیلتھ سائنس دان سنگھمترا سنگھ کا کہنا ہے جنسی تناسب میں بہتری مثبت اور صحیح سمت میں ایک قدم ہے، لیکن صنفی مساوات کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس فرق کی وضاحت خواتین کی طویل عمر کی توقع سے ہوتی ہے، لڑکیوں کے مقابلے میں اب بھی زیادہ لڑکے پیدا ہوتے ہیں- ہر 929 خواتین کے لیے ایک ہزار مرد۔سنگھمترا سنگھ کے مطابق یہ کسی حد تک بیٹے کی ترجیح کی نشاندہی کر سکتا ہے۔اعداد و شمار سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انڈیا میں شرح پیدائش فی عورت دو بچے رہ گئی ہے، جو کہ سنہ 2015-16 کے آخری سروے کے دو اعشاریہ دو فیصد سے کم ہے۔خیال رہے کہ انڈیا کی کل آبادی ایک ارب 30 کروڑ ہے اور اقوام متحدہ کے مطابق اس دہائی کے آخر میں ملک کی آبادی چین کی آبادی سے بڑھ جائے گی۔