اشیائے ضروریہ مہنگے ہونے کی وجہ سپلائی سائیڈ کے چیلنجز قرار

کراچی (کامرس ڈیسک) اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے پاکستانی معیشت کی کیفیت پر مالی سال 2020-21ء پر مشتمل سالانہ رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس کے مطابق گزشتہ مالی سال میں پاکستانی معیشت بحال ہوئی اور حقیقی جی ڈی پی کی نمو بڑھ کر 3.9 فیصد تک پہنچ گئی۔

رپورٹ کے مطابق مالی سال 2020-21ء میں جاری کھاتے کا توازن دس برس کی کم ترین سطح تک آگیا، جس کے نتیجے میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کافی اضافہ ہوا۔

مرکزی بینک کے مطابق سال کے دوران غیرغذائی اور غیر توانائی اشیا کی نسبتاً مستحکم قیمتوں کے باعث عمومی صارف اشاریہ قیمت (CPI) مہنگائی بھی معتدل رہی۔ تاہم رسدی چیلنجز کے باعث مجموعی قیمتیں خصوصاً غذائی اشیا کی سطح بلند رہی۔
مرکزی بینک کے مطابق لارج سکیل مینوفیکچرنگ شعبے میں مالی سال کے دوران 14.9 فیصد اضافہ ہوا ۔ سالانہ رپورٹ کے مطابق زرعی شعبے میں افزائش مالی سال 2020 کے مقابلے میں نسبتاً کم رہی۔رپورٹ کے مطابق گندم، چاول اور مکئی کی فصل میں تاریخی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جس سے کپاس کی پیداوار میں کمی کا ازالہ ہوا۔

بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ریکارڈ ترسیلات زر اور برآمدی وصولیوں کے باعث کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ کافی گھٹ کر دورانِ سال اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ ذخائر میں 5.2 ارب ڈالر اضافے کا سبب بنا۔
آئی ایم ایف اور قرض دینے والے اداروں سے رقوم کی وصولی، طویل وقفے کے بعد یورو بانڈ کے اجرا اور روشن ڈجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے غیر مقیم پاکستانیوں سے ڈپازٹس اور سرمایہ کاری کی آمدن سے کافی بیرونی فنانسنگ دستیاب ہوئی۔دورانِ سال ایندھن کی قیمتوں اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کے اثرات سے مہنگائی میں کمی بیشی ہوتی رہی۔

رپورٹ میں مہنگائی کے حوالے سے تسلیم کیا گیا ہے کہ غذائی اشیا مالی سال 21 کے دوران مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثر ہوئیں، جس کی بنیادی وجہ غیر تلف پذیر اشیا کی سپلائی چین سے متعلق مسائل تھے۔
اسٹیٹ بینک نے ترقی کی موجودہ رفتار کو برقرار رکھنے اور مزید بہتر بنانے کے لیے لازم قرار دیا ہے کہ اس سلسلے کی رکاوٹوں کو دور کیا جائے۔جن میں اہم فصلوں (خصوصاً کپاس) میں متواتر کمی، درآمدات کی ناکافی برآمدی کوریج، لیبر کی پیداواریت کم ہونا، جی ڈی پی میں ٹیکس کا جامد تناسب، جی ڈی پی میں سرمایہ کاری کا دگرگوں تناسب اور بجلی کے شعبے کا بڑھتا ہوا مالیاتی بوجھ شامل ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں