کراچی (کامرس ڈیسک) چیئرمین بزنس مین گروپ (بی ایم جی) زبیر موتی والا کا کہنا ہے کہ گیس بحران سے برآمدی آرڈرز کینسل ہوسکتے ہیں، سندھ کے حصے کی 180 ایم ایم سی ایف ڈی گیس غلطی سے پنجاب چلی گئی ہے، جس کو متعلقہ حکام بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ اس کی واپسی کا کوئی طریقۂ کار نہیں، ہمیں اگر مذکورہ مقدار میں گیس کی فراہمی کردی جاتی ہے تو گیس کی قلت پر قابو پایا جاسکے گا۔
چیئرمین بی ایم جی زبیر موتی والا نے جمعرات کو سائٹ ایسوسی ایشن کے دفتر میں چیئرمین سائٹ ایسوسی ایشن عبدالرشید اور سرپرست اعلیٰ پاکستان ہوزری مینو فیکچرز ایسوسی ایشن آف پاکستان محمد جاوید بلوانی سمیت دیگر صنعتکار رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کی۔
زبیر موتی والا کا کہنا تھا کہ سندھ کی گیس پیداوار 2600 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جبکہ ہماری کھپت 1300 تا 1400 ایم ایم سی ایف ڈی ہے لیکن ہمیں پہلے 1100 ایم ایم سی ایف ڈی ملتی تھی جو 910 تا 920 ایم ایم سی ایف ڈی ہوگئی ہے اور اب مزید 75 ایم ایم سی ایف ڈی کم کی جارہی ہے جبکہ سستی گیس لے کر مہنگی آر ایل این جی گیس دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ صنعتی علاقوں میں گزشتہ 3 ماہ سے گیس کی آنکھ مچولی کا سلسلہ جاری تھا، جس میں اب شدت آگئی ہے یہ صورتحال برقرار رہی تو بڑے پیمانے پر جو برآمدی آرڈر ملے ہیں وہ پورے نہیں ہوسکیں گے اور برآمدی ہدف کا حصول مشکل ہوجائے گا۔
گھریلوں صارفین کو گیس فراہمی میں صنعتی صارفین پر ترجیح دینے کے فیصلے کو بھی زبیر موتی والا نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت کو صنعتوں کو گیس فراہمی میں پہلی ترجیح دینی چاہئے جبکہ مختلف صنعتی علاقوں میں مختلف دنوں میں گیس لوڈشیڈنگ کی تجویز پر ان کا کہنا تھا کہ ہفتے میں ایک دن تمام صنعتی علاقوں میں لوڈشیڈنگ کی جائے اور بقیہ دنوں میں پورے پریشر کے ساتھ گیس فراہم کی جائے۔
زبیر موتی والا نے کہا کہ ’کے الیکٹرک‘ کو 63 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دینے پر غور کیا جارہا تھا، جس کو ہمارے احتجاج پر جنوری تک مؤخر کردیا گیا ہے لیکن ہمارا مطالبہ ہے کہ فروری تک یہ گیس نہ دی جائے۔
جاوید بلوانی نے کہا کہ سائٹ صنعتی علاقے میں دیگر علاقوں کے مقابلے میں عام طور پر بھی پریشر کم ہوتا ہے، جس کیلئے ہم نے سوئی سدرن گیس کمپنی سے متعدد بار درخواست کی ہے کہ گیس پریشر بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جائیں لیکن ایس ایس جی سی کی جانب سے اس معاملے کو سنجیدہ نہیں لیا جارہا۔
عبدالرشید نے سائٹ کی سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ اور خراب انفرااسٹرکچر کیلئے سندھ حکومت کے ایک ارب روپے کے فنڈز کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مزید 3 ارب روپے مختص کئے جائیں۔