اسلام آباد: (نیوز ڈیسک) اہم قانون سازی کے لئے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس شروع ہو گیا جس کے لئے 6 صفحات پر مشتمل 58 نکاتی ایجنڈا جاری کیا گیا ہے۔
پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت جاری ہے، اجلاس کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ سے کیا گیا۔ سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے انتخابات ترمیمی بل 2021 پر بحث شروع کروائی گئی، ایجنڈے کی ابتدا پر ہی اپوزیشن اراکین نے شور شرابا کرنا شروع کر دیا۔ مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے کہا کہ اپوزیشن بات کرنا چاہتی ہے تو ای وی ایم سے متعلق بل موخر کیا جائے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ آج پاکستان کی تاریخ کا اہم دن ہے، حکومت اور اس کے اتحادی بلز بلڈوز کرانا چاہتے ہیں۔ چند روز قبل رات کے اندھیرے میں اعلان ہوا کل پارلیمان کا اجلاس ہو گا، پھر اچانک پارلیمنٹ کا اجلاس مؤخر کر دیا گیا۔ باضمیر اراکین کو داد دیتا ہوں جو حکومتی دباؤ میں نہیں آئے۔ بلز کو بلڈوز کر کے عوام سے حکومت کو ووٹ ملنا محال ہے، ای وی ایم کے ذریعے سلیکٹڈ حکومت اپنی مدت کوطول دینا چاہتی ہے۔
قائد حزب اختلاف نے حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ای وی ایم کو ایول وشیئس مشین قرار دیدیا، کہا کہ ملکی تاریخ میں اس سے زیادہ فاشسٹ حکومت کبھی نہیں آئی، یہ ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں، ان کو زیب نہیں دیتا۔ حکومت کی نیت میں فتور ہے، ایوان کوئی کالا قانون منظور نہیں ہونے دے گا۔ بل منظور ہوئے تو 22 کروڑ عوام کے ہاتھ ہوں گے اور ان کے گریبان، اپوزیشن لیڈر نے مطالبہ کیا کہ اجلاس کومؤخر کر دیا جائے۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں 29 بلز پیش کئے جائیں گے، ایجنڈا کے مطابق انتخابی ترمیمی بل 2021 اور انتخابی دوئم ترمیمی بل اجلاس میں پیش کیے جائیں گے۔ کلبھوشن یادیو اور عالمی عدالت انصاف سے متعلق بل وزیر قانون فروغ نسیم پیش کریں گے۔
وفاقی دارالحکومت میں چیریٹی رجسٹریشن اینڈ فیسلی ٹیشن بل، سٹیٹ بینک آف پاکستان بینکنگ سروسز کارپورشن ترمیمی بل 2021 اور نیشنل کالج آف آرٹس انسٹیٹیوٹ بل بھی ایجنڈے میں شامل ہے۔ مسلم فیملی لا کے دو بلز، اینٹی ریپ بل 2021، حیدر آباد انسٹیٹیوٹ ٹیکنیکل مینجمنٹ سائنس بل اور اسلام آباد رینٹ ریسٹرکشن ترمیمی بل 2021 بھی ایجنڈے کا حصہ ہے۔
کریمنل لا ترمیمی بل 2021، کارپوریٹ ری سٹر کچرنگ کمپنیز ترمیمی بل 2021، فنانشل انسٹیٹیوشن ترمیمی بل 2021 اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن بل 2021 بھی مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
اسلام آباد یونیورسٹی بل 2021، زراعت، کمرشل اور صنعتی مقاصد کے لئے قرضہ جات سے متعلق ترمیمی بل، کمپنیز ترمیمی بل 2021 ، نیشنل ووکیشنل ٹیکنیکل اینڈ ٹریننگ کمیشن ترمیمی بل ، پاکستان اکادبی ادبیات ترمیمی بل 2021 اور پورٹ قاسم اتھارٹی ترمیمی بل 2021 بھی مشترکہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
مشترکہ اجلاس میں پاکستان شپنگ نیشنل کارپوریشن ترمیمی بل 2021 ، گوادر پورٹ اتھارٹی ترمیمی بل 2021، میری ٹائم ایجنسی ترمیمی بل 2021 اور امیگریشن ترمیمی بل 2021 بھی ایجنڈے کا حصہ ہے، نجکاری کمیشن ترمیمی بل 2021، کورونا وائرس کے دوران ذخیرہ اندوزی کی روک تھام اور الکرم انٹرنیشنل بل 2021 بھی اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔
قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دونوں ایوانوں میں ارکان کی کل تعداد 442 ہے۔ اس وقت دونوں ایوانوں کے موجود ارکان کی تعداد 440 ہے۔ حکومت اور اس کے اتحادی جماعتوں کی ارکان کی تعداد 221 ہے۔ اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 213 ہے۔ سینیٹر دلاور خان گروپ کے پاس بھی 6 نشستیں ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بلز کی منظوری کے لیے ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہوگی۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف اور اتحادیوں کے اراکین کی مجموعی تعداد 179 ہے۔ تحریک انصاف کے اراکین کی تعداد 156 ہے۔ حکومتی اتحادی ایم کیو ایم کے پاس 7، مسلم لیگ ق کے 5 اراکین ہیں۔ حکومتی اتحادی بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس 5، جی ڈی اے 3 ارکان ہیں۔ عوامی مسلم لیگ اور جمہوری وطن پارٹی کے پاس ایک ایک نشست ہے۔ حکومت کو قومی اسمبلی میں ایک آزاد رکن کی حمایت بھی حاصل ہے۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین کی تعداد 162 ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس 83، پیپلزپارٹی کے 56، ایم ایم اے کے 15 ارکان ہیں۔ بی این پی مینگل 4، اے این پی اے کی ایک نشست ہے۔ قومی اسمبلی میں 3 آزاد اراکین کی اپوزیشن کو حمایت حاصل ہے۔
سینیٹ میں پی ٹی آئی کے پاس 27، ایم کیو ایم 3، ق لیگ کی 1 نشست ہے سینیٹ میں بلوچستان عوامی پارٹی کی 9، جی ڈی اے کی ایک نشت ہے۔ ایک آزاد سینیٹر کی حکومت کو حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ کے حکومت اور اتحادیوں کی مجموعی تعداد 42 ہے۔
سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن کے اراکین کی تعداد 51 ہے۔ سینیٹ میں مسلم لیگ ن کی 16، پیپلزپارٹی کی 21، ایم ایم اے 6 نشتیں ہیں۔ بی این پی مینگل کی 2 نشستیں، اے این پی اور نیشنل پارٹی کی دو، دو نشتیں ہیں۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کی بھی 2 نشستیں ہیں۔ سینیٹ میں دلاور خان گروپ کی بھی 6 نشستیں ہیں۔