ووٹ کی اہمیت،حقیقت اور حقدار……..

ووٹ اگرچہ ایک چھوٹی سی پرچی ہے جس کی ظاہری کوئی حیثیت نہیں لیکن یہ ایک انتہائی طاقتور ہتھیار ہے۔ یہ غریب کی وہ واحد قوت ہے جس کی خواہش لیے سیاسی بازیگر آپ کے دروازے پر بار بار حاضری دیتے ہیں ،طرح طرح کی چاپلوسیاں اور جھوٹے وعدے کرتے ہیں اور ووٹ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ آپکی ہر غم و خوشی میں شرکت کرتے ہیں جس کا مقصد صرف ووٹ حاصل کرنا ہوتا ہے۔اس ووٹ کے ذریعے وہ اقتدار تک رسائی حاصل کرنا چاہتے ہیں چاہیے وہ بلدیاتی الیکشن ہوں یا جنرل الیکشن ہوں، ووٹ کی حقیقت کیا ہے؟ یہ انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا اردو میں مطلب نمائندہ چننا اور حقِ رائے دہی استعمال کرنا ہے۔ جمہوری نظام میں عوام اس حق کو استعمال کرتے ہوئے پارلیمان، اسمبلی اور بلدیہ انتخابات میں اپنے نمائندے چنتے ہیں۔ووٹنگ یا رائے دہی کے وقت ووٹرز اس امید پر کسی امیدوار کو منتخب کرتے ہے کہ فلاں امیدوار اس عہدے کے لیے موزوں ہے اور وہ پوری دیانتداری کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں سرانجام دے گا۔ اگر ووٹر کسی نااہل امیدوار کو سیاسی و مقامی امور کی انجام دہی کے لیے کامیاب بناتا ہے اور انتخاب کے بعد وہ نمائندگی قوم کے حقوق پامال کرتی ہے اورظلم و زیادتی کو راستہ دیتے ہیں تو ووٹرز بھی اس کے گناہ میں برابر کے شریک تصور ہوتے ہیں۔
اگر دیانتداری کے ساتھ منتخب کیے گے نمائندے اچھے کام کرتے ہیں تو ووٹرز بھی ان کی اچھائیوں میں شریک مانا جاتا ہے، ووٹ کا ایک مطلب سفارش کرنا بھی ہے یعنی ہم جس نمائندے کو ووٹ دیتے ہیں دراصل ہم اس نمائندے کی سفارش کرتے ہیں۔اس سفارش کے بارے میں اللہ تعالٰی قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے کہ “جو شخص اچھی سفارش کرتا ہے اس کی اچھائی میں ا±س کو بھی حصہ ملتا ہے اور جو بری سفارش کرتا ہے تو اس کی برائی میں وہ سفارشی بھی حصہ دار ہوتا ہے”. ہمارے ووٹ سے کامیاب ہونے والے نمائندے اپنے دور نمائندگی میں جو بھی نیک یا بد عمل کریں گے ہم بھی اس عمل میں برابر کے شریک سمجھے جائیں گے۔ لہٰذا ووٹ کا درست استعمال شرعی، اخلاقی، قومی فریضہ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ آج کل صوبہ خیبر پختون خواہ اور دوسرے فیز مین ھزارہ ڈویڑن کے 6 اضلاع مین بھی الیکشن ہونے ہیں اسلیے ھمی. درست سمت مین ابھی سے سوچنا ہو گا. پشاور، چارسدہ، مردان، ہری پور اور صوبہ کے دیگر اضلاع میں بلدیاتی سیاسی گہما گہمی شروع ہو چکی ہے اور اب عروج پر ہے کئی امیدوار میدان میں اترے ہیں۔ ان میں سے کچھ تو پرانے سیاسی کھلاڑی ہیں اور کچھ نئے چہرے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔اس صورت حال میں ایک عام شریف آدمی کو اپنا ووٹ کا درست استعمال کرکے ووٹ کے صحیح حقدار کو کامیاب کرنا لازم ہے کیونکہ پاکستان کے تمام صوبوں اور بالخصوص خیبرپختونخواہ کے ضلع مانسہرہ مین موجودہ سیاست مفاد پرست اور جاہل لوگوں کے ہاتھوں گندگی کا ایک تالاب بن چکی ہے۔اگر سنجیدہ اور صاف ستھرے لوگ اسے پاک کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھیں گے تو اس گندگی میں دن بہ دن مزید اضافہ ہوتا جائے گا اور ہمارا مستقل تاریک در تاریک ہوتا جائے گا۔بہت سے دوست سوچتے ہونگے کہ ووٹ کا اصل حقدار کون ہوسکتا ہے۔
اس سوال کا جواب بہت آسان ہے۔اگر تمام سیاسی جماعتوں یا برادریوں اور جنبہ کے ساتھ غیرضروری جنونی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر سوچا جائے تو جواب ان امیدواروں کی کارگردگی ہی سے مل جائے گا۔کچھ امیدوار پچھلے کئی عشروں سے عوام کومختلف طریقوں سے جھانسہ دیکر بلدیاتی انتخابات میں آتے رہے ہیں اور جنبہ برادری کا عوام سے نعرہ لگوا کر مزید نااتفاقیاں پیدا کرتے رہے ہیں۔ ایسےنمائندےووٹ کے اصل حقدار نہیں ہیں بلکہ اپنے جنبہ، برادری اور ملک و قوم کے مجرم ہیں۔ انکو نہ تو عوامی مسائل کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی وہ علاقے کے حقیقی مسائل کی طرف توجہ دینے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو عوام میں تفرقات پھیلا کر اپنا مفاد اور سیٹ بچاتے ہیں۔یہ وہ سماج دشمن عناصر ہیں جو عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے ترقیاتی کام کرانے کی بجائے لوکل باڈی کی سکیموں کو ٹھیکیداروں سے ملکر دئیے گے فنڈز مین خورد برد کروانے میں خود شامل ہوتے ہیں اور جب دوبارہ الیکشن قریب آئیں تو جھوٹے وعدوں کے پہاڑ کھڑے کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ طرح طرح کے تعصبات کی بنا پر لوگوں کو بیوقوف بنا کر ووٹ حاصل کرتے ہیں۔ لہٰذا عقلمندی شعور و شرافت کا تقاضا یہ ہے کہ سیاست کے میدان کو ان لوگوں کے ہاتھوں سے چھیننے کی کوشش کی جائے جو ذات برادری اور جنبہ کے نام پر عوامی ووٹ کا استحصال کر رہے ہیں۔اسی طر ح حقدار وہ بھی نہیں جو آباواجداد کی حکمرانی کا ڈھول پیٹنے پر فخر کرکے عوام کو بیوقوف بناتے رہے ہیں۔ یا ایسے لوگ بھی بلکل حقدار نہیں جو یہ سمجھ بیٹھیں کہ یہ بلدیاتی سیٹ یا قومی و صوبائی سیٹ ان ہی کا حق ہے، اور کہتے پھرین کہ میں ہی ھمیشہ الیکشن مین حصہ لیتا رہا ہوں، ایسے لوگوں کو بھی عوام کئی بار آزما چکے ہیں۔ووٹ کا اصل حقدار وہ ہیں جو عوامی حقوق کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور مسائل کے حل کیلئے دن رات جدوجہد کرتے ہیں اور خود اپنے وقت جان و مال کی تکلیف برداشت کرتے ہیں۔ ووٹ کا اصل حقدار وہ افراد ہیں جو معاشرے کے محروم طبقوں کے ساتھ ہمدردی کرتے ہیں اور ان کی آواز بن جاتے ہیں۔لہذا موجودہ صورتحال میں اپنے ووٹ کی اہمیت کو خوب سمجھ لینے کی ضرورت ہے کیوں کہ صرف ایک ووٹ بھی علاقائی ترقی کے لیے فیصلہ کن ثابت ہو سکتا ہے۔ اگر آپ کسی بغض میں ابھی بھی غلط فیصلہ کرین گے تو آپ علاقے کی ترقی کیلئے کوشاں نہیں بلکہ اپنی تھانیداری ثابت کرنے کے چکر مین ہیں اور آپکی اس نادانی کی وجہ سے علاقہ مزید 10 سال پیچھے چلا جاتا ہے.
یاد رکھین اگر آپ نے بحثیت ووٹرز سوچ نہ بدلی تو آپ فرسودہ سیاسی سسٹم کو گراس روٹ پر ختم نہ ہونے دینے والوں کی لیسٹ می. شامل ہین. جو عوام مین اپنی باتوں سے لوگون کو. تاثر تو کر سکتے ہین لیکن در پردہ وہ اپنے علاقے کی ترقی کے دشمن ہین. اسلیے الیکشن مین حقیقی نمائندہ کو ووٹ کریں، کہیں ایسا نہ ہو کہ لمحوں نے خطا کی اور صدیوں نے سزا پائی کے مصداق ہمیں بعد از انتخابات پچھتانا پڑے۔ اسلیے ذار سوچئے. تاکہ عوامی خوشحالی اور علاقائی ترقی مین اپکا اپنا کردار نمایاں نظر آ? اور صاف ستھری باکردار، بااخلاق اور تعلیم یافتہ قیادت آپکی اور علاقے کی پہچان بن سکے. اسلیے ووٹ کی اہمیت کو جانئیے اور اپنے ووٹ کو گپ شپ جنبہ برادری یا بغض مین پول نہ کرین.

اپنا تبصرہ بھیجیں