پھانسی سے پہلے کے 24 گھنٹے …….

سزائے موت کے قیدی کو پھانسی سے 24 گھنٹے قبل کیا محسوس ہوتا ہے؟ سرمد کھوسٹ کی فلم عوام کو سزائے موت کے قیدی کے سیل تک لے گئی

کراچی (شوبز ڈیسک) : پاکستانی ادکار و ہدایت کار سرمد کھوسٹ نے حال ہی میں سزائے موت کے قیدی کی پھانسی سے پہلے کے 24 گھنٹوں پر ایک فلم بنائی جس میں سزائےموت کے قیدی کی سزا پر عملدرآمد سے قبل کے تمام لمحات عکسبند کیے گئے۔ اس فلم میں عام عوام کو سزائے موت کے قیدی کے قید خانے کے اندرونی مناظر کے ساتھ ساتھ قیدی کی سزائے موت سے قبل کیفیت بھی دکھائی گئی ہے۔
یہ فلم ایک تنظیم جسٹس پراجیکٹ پاکستان کے پہلے موکل کی زندگی پر بنائی گئی، ذوالفقار علی خان نے سزائے موت پانےکے بعد 17 سال جیل کی سزا کاٹی۔ ذوالفقار کی زندگی پر بنی اس فلم کو براہ راست چلایا گیا جس میں کسی قسم کی کوئی ایڈٹنگ نہیں کی گئی۔ سرمد کھوسٹ نے اس فلم میں ایک ایسے قیدی کا کردار ادا کیا جسے سزائے موت کی سزا سنائی گئی اور 24 گھنٹے بعد اسے تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔

فلم میں سرمد کھوسٹ کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پھانسی سے 24 گھنٹے قبل سزائے موت کا قیدی کس کرب سے گزر رہا ہوتا ہے۔اس فلم کا نام No Time to Sleep اس لیےرکھا گیا ہے کیونکہ پھانسی سے 24 گھنٹے قبل نہ تو قیدی کا وقت تیز گزرتا ہے اور نہ ہی آہستہ ، بلکہ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ساتھ قیدی کی گھبراہٹ اور کرب میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ جیل قوانین کے مطابق پھانسی سے 24 گھنٹے قبل قیدی کو کھانے میں صرف چائے اور بسکٹ دئے جاتے ہیں۔
پھانسی سے 24 گھنٹے قبل قیدی کی نیند بھی اُڑ جاتی ہے اور اسی لیے اس فلم کو No Time to Sleep کا نام دیا گیا ہے۔ 24 گھنٹے پہلے سے ہی قیدی اپنی موت کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے، نمازیں پڑھتا ، عبادت کرتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے لمحے گننا شروع کر دیتا ہے۔ اس فلم کو سوشل میڈیا پر کافی پذیرائی مل رہی ہے۔ اس فلم کو سوشل میڈیا ویب سائٹ فیس بُک پر 5 سے زائد حصوں میں اپ لوڈ کیا گیا ہے۔

دوسرے حصے میں پھانسی سے پہلے کی رات دکھائی گئی ہے ۔ فلم کے تیسرے حصے میں قیدی کی بے چینی اور حوالات میں ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار سے بات چیت دکھائی گئی۔اگلے حصے میں قیدی کی نمازوں کی ادائیگی اور اہل خانہ سے ملاقات کے مناظر دکھائے گئے۔ اس فلم کے پانچویں حصے میں بھی قیدی کو اپنی عاقبت کی تیاری کرتے، نمازوں کی ادائیگی کرتے اور جیل سے باہر جھانتے ہوئےدیکھا گیا۔

اس فلم کے آخری حصے میں سرمد کھوسٹ کی اداکاری کی خوب تعریف کی گئی، اس حصے میں قیدی کے آخری لمحات دکھائے گئے کہ سزائے موت کا قیدی کس طرح اپنے آخری لمحات میں خود غسل لے کر پھانسی کے لیے تیار کرتا ہے۔

اس فلم کو در اصل ذوالفقار علی خان نامی ایک قیدی کی جیل کی زندگی پر بنایا گیا جس نے اپنے دفاع میں دو ڈاکوئوں کو قتل کیا تھا جس کے بعد اسے سزائے موت سنا دی گئی۔
ذوالفقار علی خان نے جیل میں گزارے اپنے 16 سالوں کے دوران 400 سے زائد قیدیوں کی مدد کی جبکہ کئی قیدیوں کو تعلیم دی جس میں سے 27 نے یونیورسٹی کی ڈگریاں حاصل کیں، 48 قیدی کالج سے گریجویٹ ہوئے اور 51 قیدیوں نے میٹرک کیا۔ اس سب کے باوجود ذوالفقار علی خان کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ ذو الفقار علی خان کے لیے حکومت کی جانب سے ایک وکیل مقرر کیا گیا تھا جس نے ذو الفقارسے اضافی فیس کا مطالبہ کیا اور اضافہ فیس دینے سے قاصر ہونے پر ذو الفقار کے وکیل نے کبھی عدالت کے باہر اس سے ملاقات نہیں کی اور نہ ہی اس کی کہانی سننے کی زحمت کی۔
ذو الفقار کے وکیل نے پراسیکیوشن کی جانب سے پیش کیے جانے والے جھوٹے ثبوتوں کو بھی چیلنج نہیں کیا ، کسی اور وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی استطاعت نہ رکھنے پر بالآخر 1999ء میں ذو الفقار کو فائرنگ اسکواڈ اور راولپنڈی کی انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سزائے موت سنا دی۔اس دوران ذوالفقار علی خان کی سزائے موت کی 20 سے زائد مرتبہ تواریخ بدلی گئیں لیکن سزا برقرار رہی۔ اور بالآخر ذوالفقار علی خان کو جون 2015ء کو تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں