بھارت کی جانب سے گرین ہاﺅس گیسوں میں اضافے سے ہمالین رینج اور گلیشرزخطرے میں

نئی دہلی سی او پی 20میں کیئے اپنے وعدوں سے مکر گیا‘بھارت میں جنگلات میں کمی اور زہریلی گیس کے اخراج میں اضافے سے پاکستان سمیت کئی ملکوں کو خطرہ

نئی دہلی/گلاسکو(انٹرنیشنل ڈیسک ) بھارت دنیا میں کوئلہ استعمال کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے جو سالانہ 714ملین ٹن گرین ہاﺅس گیسیں پیدا کرتا ہے پاکستان سمیت خطے کے کئی ممالک کو بھارت کی جانب سے پیدا کردہ گرین ہاﺅس گیسوں کی قیمت اداکرنا پڑتی ہے اس فہرست میں سالانہ 2777ملین ٹن کے ساتھ چین پہلے اور1442ملین ٹن کے ساتھ امریکا دوسرے نمبر پر ہے.

بھارت اور چین کی جانب سے کوئلے کے بے دریغ استعمال سے خطے میں ہمالیہ رینج اور بڑے گلیشئرزتیزی کے ساتھ پگھل رہے ہیں جو آنے والے وقت میں میٹھے پانی کی شدید قلت کا باعث بن سکتے ہیں خطے میں بڑے پیمانے پر موسمیاتی تبدیلیوں سے ہونے والی تباہی سے بچنے کے لیے ان ملکوں کو فوری طور پر گرین ہاﺅس گیسوں کی شرح میں نمایاں کمی لانی ہوگی. ادھر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس کے لیے 2070 تک صفر گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کا ہدف دے رہے ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت تک اتنی تباہی ہوچکی ہوگی بھارت کے اقدام سے اسے روکا نہیں جاسکے گابھارتی وزیراعظم نے یہ ہدف گلاسگو میں ہونے والے موسمیاتی تبدیلی کے سربراہی اجلاس میں دیا ہے جو کانفرنس میں شریک دیگر ممالک کے مقابلے میں کافی بعد کی تاریخ ہے بھارت دنیا میں چین اور امریکہ کے بعد ماحول میں کاربن ڈائی اکسائڈ خارج کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے.
بھارت اپنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور معیشت کے کوئلے اور تیل پر بھاری انحصار کے باعث اس کا ماحول میں کاربن ڈائی اکسائڈ کا اخراج تیزی سے بڑھ رہا ہے اور اس کو اس وقت تک کم نہیں کیا جا سکتا جب تک اس میں کمی لانے کے لیے سخت اقدامات نہ کیے جائیں بھارت نے ماحول میں نقصان دہ گیس کے اخراج میں مجموعی طور پر کمی کا ہدف مقرر کرنے کی مزاحمت یہ کہتے ہوئے کی ہے کہ صنعتی ممالک کو اس بوجھ کا بہت زیادہ حصہ اٹھانا چاہیے کیونکہ انہوں نے گزرتے وقت کے ساتھ ماحول میں نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں بہت زیادہ حصہ ڈالا ہے.
بھارت کا کہنا ہے کہ اخراج کی شدت کا ہدف جو کسی ملک کی اقتصادی ترقی کی عکاسی کرتا ہے کا دوسرے ممالک سے موازنہ کرنے کا ایک بہتر طریقہ ہے نریندر مودی کا کہنا تھا کہ ان کا ملک 2030 تک اپنی معیشت کی کاربن اخراج کی شدت میں 45 فیصد کمی کرے گا بھارت کا کاربن گیسوں کے اخراج میں کمی کا یہ ہدف اس کے 2005 سے 2030 کے گذشتہ ہدف سے بہت زیادہ ہے جس میں بھارت نے 33 سے 35 فیصد کمی لانے کا اعادہ کیا تھا.
تاہم کاربن کی اخراج میں کمی لانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ مجموعی طور پر ماحولیاتی آلودگی کی وجہ بننے والی گیسوں کے اخراج میں کمی ہو گی حالیہ برسوں میں بھارت کے تیزی سے ترقی ہوئی معیشت کا دارومدار اس کے فوسل فیولز پر انحصار کے باعث ہے جو کہ ملک کے زیادہ تر گرین ہاﺅس گیسوں کے اخراج کا باعث ہے. موسمیاتی تبدیلی پر بین الحکومتی پینل کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر گیسوں کے صفر اخراج کا ہدف، جہاں دنیا کا کوئی ملک ماحول میں گرین ہاﺅس گیسوں کی مجموعی مقدار میں اضافہ نہیں کر رہا، 2050 تک درجہ حرارت میں 1.5 سینٹی گریڈ اضافے تک محدود کرنے کے لیے کم از کم ضرورت ہے اور اس ہدف کو پورا کرنے کے لیے دنیا کے 130 ممالک نے عوامی سطح پر وعدہ کیا ہے.
بھارتی وزیر اعظم نے وعدہ کیا ہے کہ وہ 2030 تک اپنی فوسل فیول یعنی کوئلہ، تیل وغیرہ کے استعمال سے حاصل ہونے والی توانائی میں کم لا کر دیگر ذرائع سے اپنی توانائی کی صلاحیت کو پانچ سو گیگاواٹس تک بڑھائے گا یہ ایک مشکل ہدف ہے کیونکہ بھارت کی اس وقت دیگر ذرائع سے حاصل ہونے والی توانائی کی صلاحیت 100 گیگا واٹس ہے اور اس نے گذشتہ برس اسے اگلے سال تک 175 گیگا واٹس تک لے جانے کا حدف مقرر کیا تھا.
اسی طرح 2015 میں بھارت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ 2030 تک اپنی پیدا کی جانے والی بجلی کا 40 فیصد بنا فوسل فیول یعنی تیل اور کوئلہ کے استعمال کے بغیر حاصل کرے گا مگر وزیر اعظم نریندر مودی نے یہ ہدف اب بڑھا کر 50 فیصد کر دیا ہے انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق سنپ 2019 میں بھارت 23 فیصد بجلی دیگر ذرائع سے حاصل کر رہا تھا. کیٹ سے منسلک سینٹی بکسٹر کا کہنا ہے کہ بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک کو اپنی معیشت کو کاربن سے پاک کرنے اور پیرس معاہدے تک تحت درجہ حرارت میں 1.5 سیٹی گریڈ کے اصافے تک محدود رکھنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی مدد کی ضرورت ہے بکسٹر کہتی ہے کہ بھارت کا کاربن سے پاک ہونے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے اور نہ ہی اس کے ایسے اہداف ہیں جو یہ نشاندہی کر سکیں کہ اسے کاربن کے اخراج میں کمی کے لیے کہاں مدد درکار ہے یا درحقیقت اسے کتنی مدد درکار ہے.
بھارت نے کئی مرتبہ اس بات کو اجاگر کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کے ایک تہائی حصے میں جنگلات اگانا چاہتا ہے لیکن اس نے اس کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں کیا ہے اور اس میں کام کی رفتار بھی انتہائی سست رہی ہے البتہ جنوبی بھارت کے کچھ علاقوں میں شجر کاری کے کچھ اقدامات اٹھائے گئے ہیں جبکہ بھارت کا شمال مشرقی حصہ حال ہی میں جنگلات سے محروم ہوا ہے جنگلات میں اصافہ کاربن سینک کے طور پر کام کرتا ہے یعنی جنگلات میں اضافے سے کاربن کے اخراج کے اثرات کو واضح حد تک کم کیا جا سکتا ہے.
بھارت 2030 تک اتنے درخت لگانے کا ارادہ رکھتا ہے جو ماحول سے 2.5 سے 3 بلین ٹن اضافی کاربن ڈائی اکسائڈ کو جذب کر سکیں گلوبل فورسٹ واچ تنظیم جو یونیورسٹی آف میری لینڈ، گوگل، امریکی جیولوجیکل سروے اور ناسا کے اشتراک سے کام کرتی ہے کے ایک اندازے کے مطابق بھارت میں 2001 سے 2020 تک 18 فیصد جنگلات کی کمی ہوئی ہے لیکن بھارتی حکومت کے اپنے سروے کے اعداد وشمار کے مطابق 2001 سے 2019 کے درمیان ملک میں 5.2 فیصد جنگلات میں اضافہ ہوا ہے ایسا اس لیے ہے کہ گلوبل فارسٹ واچ کی رپورٹ میں صرف وہ پودے اور درخت شامل ہیں جو پانچ میٹر سے زیادہ اونچے ہیں جبکہ بھارت کے سرکاری اعداد و شمار میں ایک خاص رقبے میں درختوں کی تعداد شامل ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں