راولپنڈی میں سرکاری اراضی واگزار کرانے اور غیر قانونی تعمیرات کیخلاف کاروائی سرد خانے کی نذر ہو گئی

راولپنڈی (جنرل رپورٹر) وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے واضح احکامات کے باوجود راولپنڈی میں سرکاری جگہوں سے قبضے واگزار کرانے اور غیر قانونی تعمیرات کے خلاف کاروائی سرد خانے کی نذر ہو گئی میٹروپولیٹن کارپوریشن راولپنڈی نے مبینہ طور پر شہر بھر میں کمرشل تعمیرات کی مد میں صوبائی حکومت کے قوانین ہوا میں اڑا دیئے بلڈنگ بائی لاز میں میٹرو پولیٹن کارپوریشن نے ریسکیو1122اور سول ڈیفنس سمیت دیگر اداروں کے این او سی کو اپنی پسند ناپسند کے تابع کر دیا جس سے شہر بھر میں دیو ہیکل ،کثیر المنزلہ کمرشل پلازوں میں مروجہ قواعدو ضوابط کو یکسر اندازکیا جانے لگامیٹرو پولیٹن کارپوریشن کی مبینہ پشت پناہی سے وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی قبضہ گروپوں کے خلاف کاروائی کی پالیسی بھی ماند پڑنے لگی جس سے بلڈنگ مافیا نے سڑکوں اور فٹ پاتھوںکوبھی اپنی ملکیت میں شامل کر لیامیٹروپولیٹن کارپوریشن راولپنڈی کے بلڈنگ اینڈ زوننگ بائی لازکے تحت کسی بھی کمرشل پلازہ کی تعمیر کے لئے ریسکیو1122اور محکمہ شہری دفاع (سول ڈیفنس)سمیت مختلف محکموں کی جانب سے مجوزہ بلڈنگ پلان پر پیشگی این او سی لازمی قرار دیا گیا تھا جس میں متعلقہ دونوں ادارے کسی بھی ہنگامی صورتحال میں ایمرجنسی اخراج ، ا?گ بجھانے کے ا?لات ،بلڈنگ میں ہوا اور روشنی کے گزرنے کے مناسب انتظام اور دھوئیں کے اخراج سمیت دیگر امور کو موجودگی یقینی ہونے پر این او سی جاری کرتے ہیں ذرائع کے مطابق گزشتہ 2سال سے راولپنڈی میں سول ڈیفنس سے ایک این او سی بھی جاری نہیں ہو سکا جبکہ ریسکیو1122 سے راولپنڈی سمیت5تحصیلوں میں مجموعی طور پر2سال میں صرف130این او سی جاری ہوئے جبکہ شہر میں گزشتہ2سال کے دوران ہونے والی کمرشل تعمیرات کی تعداد 2ہزارکے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جن میں متعدد کثیر المنزلہ پلازے بھی شامل ہیں ذرائع کے مطابق ان تعمیرات میں سے بعض کے پاس نقشے موجود ہی نہیں جبکہ بیشتر تعمیرات منظور شدہ نقشوں سے تجاوز کر کے بنائی گئی ہیں ذرائع نے دعویٰ کیا کہ کارپوریشن کے شعبہ پلاننگ نے 20سی25فیصد کی شرح سے حصہ مقرر کر رکھا ہے جس پر بلڈنگ انسپکٹر معاملات سلجھانے کے بعد نہ صرف غیر قانونی تعمیرات کو تحفظ دیتے ہیں بلکہ بوگس فائل ورک کے ذریعے حکام کوسب اچھا کی رپورٹ جاری کر دی جاتی ہے اس ضمن میں رابطہ کرنے پر سول ڈیفنس افسر طالب حسین نے بتایا کہ اس حوالے سے ہم 1960کے صدارتی ا?رڈی نینس کو فالو کرتے ہیں ہمیں ا?ر ڈی اے اور کارپوریشن کی جانب سے کوورنگ لیٹر کے ساتھ جو مجوزہ نقشے بھجوائے جاتے ہیں ہم ان پر این سی او جاری کرتے ہیں تاہم نقشے یا بائی لاز پر عمل کرانا انفورسمنٹ والوں کا کام ہے ہمارے پاس عملدرا?مد کا کوئی اختیار نہیں ہے انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ گزشتہ 4سالوں میں سول ڈیفنس کے پاس این او سی کا شائید ہی کوئی کیس ا?یا ورنہ متعلقہ ادارے ہمارے تک معاملہ ہی نہیں پہنچنے دیتے جبکہ ریسکیو1122کی فائر اینڈ سیفٹی افسر عذرا کے مطابق ہم نے کسی بھی مجوزہ نقشے پر فائر اینڈ سیفٹی کے حوالے سے این او سی جاری کرنا ہوتا ہے لیکن قانون ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہم از خود کسی نقشے پرمداخلت کر کے فائر اینڈ سیفٹی کے مروجہ طریقہ کار پر عمل کروائیں ہم صرف اس نقشے پر این او سی جاری کرتے ہیں جو کارپوریشن کی جانب سے ہمیں بھجوایا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ گزشتہ سالوں میں 1122نے راولپنڈی کے علاوہ ٹیکسلا ، گوجرخان اور کلر سیداں میں مجموعی طور پر130این او سی جاری کئے ہیں تاہم بے اختیار ہونے کی وجہ سے ہم نے `1سال کوئی این او سی جاری ہی نہیں کیونکہ ہمارے پاس کوئی لیگل سٹیندنگ نہیں ہے ادھر اسسٹنٹ میونسپل افسر عبدالسلام عباسی نے بتایا کہ کسی بھی کمرشل پلازے کے لئے سول ایوی ایشن ، ماحولیات ،سول ڈیفنس ،ریسکیو1122اور ٹریفک پولیس سمیت مختلف متعلقہ محکموں کے این او سی کا اجرا لازمی ہے لیکن اس وقت ہم صرف ہائی ویز پر 45فٹ سے بلند عمارت کے لئے این او سی لازمی قرار دیتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں