نور مقدم قتل کیس; قانونی ماہرین نے پولیس رپورٹ میں خامیوں کی نشاندہی کردی

پولیس نے 8 ستمبر کو قتل کا نامکمل چالان پیش کیا جبکہ اس میں مبینہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے موبائل فون کی جانچ پڑتال ابھی باقی ہے اور موبائل کا ڈیٹا عدالتی ریکارڈ کے لیے حاصل نہیں کیا گیا۔ قانونی ماہرین

اسلام آباد (حالات کرائم ڈیسک) : نور مقدم قتل کیس میں قانونی ماہرین نے پولیس رپورٹ میں خامیوں کی نشاندہی کر دی۔ تفصیلات کے مطابق سیشن کورٹ نے جوں ہی ملزم ظاہر جعفر ، اس کے والدین اور دیگر شریک ملزمان کےخلاف نور مقدم کے بہیمانہ قتل کے مقدمے کی سماعت شروع کی، قانونی ماہرین نے پولیس کی جانب سے پیش کے جانے والے نامکمل چالان میں خامیوں کی نشاندہی کردی۔
قانونی ماہرین کے مطابق پولیس نے 8 ستمبر کو قتل کا نامکمل چالان پیش کیا جبکہ اس میں مبینہ مرکزی ملزم ظاہر جعفر کے موبائل فون کی جانچ پڑتال ابھی باقی ہے اور موبائل کا ڈیٹا عدالتی ریکارڈ کے لیے حاصل نہیں کیا گیا۔ قومی اخبار ڈان نیوز کے مطابق مقدمے کی تفتیش کرنے والے افسر انسپکٹر عبدالستار کے مطابق ملزم کے موبائل فون کو وقوعہ کے دن نقصان پہنچا تھا اور ڈیٹا بازیافت نہیں کیا جا سکا۔

نہوں نے مزید کہا کہ ایک درخواست عدالت میں دائر کی گئی تھی، جس میں موبائل فون کی مرمت کی اجازت مانگی گئی کیونکہ اس سے استغاثہ کے کیس کو مضبوط بنانے کے لیے مفید شواہد مل سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پولیس کے چالان نے ملزم ظاہر جعفر کے فون کا بڑے پیمانے پر حوالہ دیا جسے وہ اکثر اپنے والدین اور دوسروں سے بات کرنے کے لیے استعمال کرتا تھا۔
چالان کے مطابق نور مقدم کا سر قلم کرنے کے بعد تک بھی ظاہر جعفر کا موبائل فون کام کر رہا تھا کیونکہ اس میں کہا گیا تھا کہ مبینہ قاتل کے والد ذاکر جعفر نے اپنے بیٹے کو یہ کہہ کر پرسکون کیا کہ اس کے آدمی اسے بچانے اور لاش کو ٹھکانے لگانے کے لیے راستے میں ہیں۔ اس حوالے سے سابق انسپکٹر جنرل پولیس سلیم اللہ خان بھی حیران ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر کو شروع میں موبائل فون کی مرمت کے لیے درخواست دائر کرنی چاہئیے تھی۔
سلیم اللہ خان نے نشاندہی کی کہ پولیس نے انسداد دہشت گردی ایکٹ اور حدود آرڈیننس کی دفعات نہیں لگائیں جس کی وجہ سے عدالت سے باہر تصفیہ کرنا آسان ہو جائے گا۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج (اے ڈی ایس جے) عطا ربانی کیس کی کارروائی کا دوبارہ آغاز کریں گے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اسلام آباد سیشن کورٹ کے حالیہ اعدادوشمار میں انکشاف کیا گیا کہ 80 فیصد سے زائد مقدمات میں مبینہ ریپ کے مجرموں کو عدالتوں نے کمزور پراسیکیوشن، ناقص تفتیش یا عدالت سے باہر ہونے والے تصفیے کی وجہ سے بری کردیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں