علاج اس کا بھی کچھ اے چارہ گراں ہے کہ نہیں……ِ؟ ……… تحریر: انجینئر خورشید شینواری

لوگوں کو یہ خوش گمانی ہے کہ ہم جیسے قلمکار اگر ان کے مسائل پر نظر ڈالیں گے تو حکام بالا نہ صرف فوری توجہ دیں گے بلکہ ان کے مستقل حل کی راہ بھی نکالیں گے۔ گزشتہ دنوں بی ٹیک انجینئرز کے ایک گروپ کیساتھ ایک مختصر نشست میں شرکت کا موقع ملا، اس موقع پر انہوں نے دل کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا۔ یہ نشست ہمارے ایک مشترکہ دوست کے ذریعہ ہوئی تھی جس کے بعد ٹیک انجینئرز کی طرف سے جو فریاد سنائی گئی وہ ہم من و عن حکام بالا کے سامنے رکھنا چاہتے ہیں تاکہ ان کے مسائل پر ہمدردانہ غور کیا جا سکے۔ ہمارا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے کو خوش دیکھ کر ہماری نیند اڑجاتی ہے، ہم دوسرے فریق کو غلط ثابت کرنے کیلئے ہر طرح کے ہتھکنڈے آزمانے پر تیار ہو جاتے ہیں، یہی حال ہماری بیورو کریسی میں ہے، پی ایم ایس اور پی اے ایس گروپ میں کہیں لڑائی سب کو پتہ ہے،ایسے میں بی ایس سی اور بی ٹیک انجینئرز بھی آمنے سامنے دکھائی دیتے ہیں، کچھ کوگ خود تو پروموشن اور الاؤنسز لے چکے ہیں لیکن اپنے دوسرے کچھ ساتھیوں کو اس حق سے محروم رکھنے پر منحصر ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ صرف پاکستان انجینئرنگ کونسل سے رجسٹرڈ انجینئرز ہی پروموشن اور الاؤنسز کے حقدار ہیں۔ اس ضمن میں وہ پی ای سی ایکٹ کی صرف ان شقوں کا سہارا لے رہے ہیں جو کہ ان کے موافق ہیں جبکہ ایسی شقیں جو کہ ایسوسی ایٹ اور بی ٹیک انجینئرز کے حق میں ہیں ان کا ذکر نہیں کرتے۔ یہ بی ٹیک کی ڈگری کیا ہے اس کیلئے آپ کو تھوڑی دیر کیلئے ماضی میں لئے چلتے ہیں۔1973 میں حکومت پاکستان نے ایسی ایٹ انجینئرز کے اسرار پر ایک ڈگری پروگرام شروع کیا جس کے ذریعہ وہ افراد جن کے پاس میٹرک کے بعد تین سالہ ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئر کا امتحان پاس کرنے اور بعد ازاں متعلقہ شعبہ میں تجربہ تھا وہ اس ڈگری پروگرام میں داخلے کے اہل قرار پائے۔ اس چار سالہ پروگرام کی تکمیل کے بعد بی ٹیک آنرز یعنی بیچلر آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی کی ڈگری دینے کا فیصلہ ہوا اور اسکو بی ایس سی انجینئرنگ کے مساوی قرار دیا گیا۔ دونوں ڈگری پروگرام موجودہ ہائر ایجوکیشن کمیشن اور سابقہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن سے منظور شدہ ہیں، دونوں میں فرق یہ ہے کہ بیچلر آف انجینئرنگ میں کنسیپچل ڈیزائن کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ بیچلر آف انجینئرنگ ٹیکنالوجی میں اپلائڈ انجینئرنگ یا فیلڈ انجینئرنگ پر فوکس کیا جاتا ہے۔دونوں کو حکومتی توجہ کی ضرورت تھی مگر پہلے پر تو حکومتی توجہ رہی مگر مؤخرالذکر عدم توجہی کا شکار رہا۔ ایک تجویز یہ دی گئی کہ حکومت پی ای سی کو ختم کرکے پاکستان انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کمیشن تشکیل دے جسمیں انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی دونوں کی سر پرستی کی جائے۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل ایکٹ کی شق نمبر اٹھائیس میں ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئر رکھنے والے افراد کو تحفظ فراہم کیا گیا، یہ بی ٹیک انجینئرز ڈپلومہ آف ایسوسی ایٹ انجینئر کے بعد مزید چار سال انجینئرنگ ٹیکنالوجی کی تعلیم حاصل کرتے ہیں مگر ان کے ساتھ زیادتی جاری ہے۔ 1985 تک بی ٹیک کی ڈگری کو پی ای سی تسلیم کرتی رہی مگر بعد میں اس سے لاتعلق ہو گئی۔ سپریم کورٹ آف پاکستان نے 1993 ء میں سوموٹو ریویو پٹیشن نمبر52 نمٹاتے ہوئے اپنے تفصیلی فیصلے میں (جو جون 1995 میں حکم جاری کیا) کہا کہ پی ای سی ایکٹ سرکاری و نیم سرکاری اداروں کے ملازمین پر لاگو ہی نہیں ہوتا۔ سرکاری اداروں میں ملازمین پروفیشنل انجینئرنگ ورک نہیں کرتے، یہ ایک پروفیشنل کنسلٹنٹ اور کنٹریکٹرز پر لاگو ہوتا ہے، مزید کہا کہ پاکستان انجینئرنگ کونسل سرکاری ملازمین کی ترقی میں دخل اندازی نہیں کرسکتی، مذکورہ بالا فیصلے میں واضح طور پر درج ہے کہ پی ای سی کا کام حکومتی ملازمین پر فوکس کرنا نہیں بلکہ انجینئرنگ پروفیشن اور انجینئرنگ کی تعلیم کو ریگولیٹ کرنا ہے۔مگر مبینہ طو ر پر اس ادارے نے اپنے اصل مقصد سے ہٹ کر دیگر معاملات پر زور دینا شروع کیا ہوا ہے حالانکہ کونسل کو چاہئے تھا کہ ڈپلومہ، سرٹیفکٹ سے لیکر انجینئرنگ اور انجینئرنگ ٹیکنالوجی دونوں پر توجہ دیتی، اس نے صرف تھیوریٹیکل انجینئرنگ پر دھیان رکھا، بی ٹیک انجینئرز کا یہ بھی گلہ ہے کہ کونسل سے منسلک سرکاری ملازمین عملی طور پر اس ادارے کے الیکشن میں حصہ لیتے رہے اور حکومت سے زیادہ اس کونسل سے وفا دار رہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد حکومت پاکستان نے وزارت تعلیم کے ذریعہ اعلامیہ جاری کیا کہ جہاں جس پوسٹ پر بی ایس سی انجینئرنگ کی تعلیم درکار ہوگی وہاں پر بی ٹیک کی ڈگری کے حامل افراد اہل ہوں گے مگر پاکستان کے تمام تعمیراتی شعبہ کے اداروں کی باگ دوڑ بی ای سی کے ممبرز کے پاس تھی تو بی ٹیک انجینئرز کی کہیں شنوائی نہ ہو سکی۔ پاکستان انجینئرنگ کونسل ایکٹ میں 2011 تک انجینئرنگ ٹیکنالوجی کی تعلیم کو کور حاصل رہا لیکن 2011 کے بعد ان کے گرد گھیرا مزید تنگ ہو گیا۔ صوبہ سندھ میں ان کا استحصال روکتے ہوئے حکومت سندھ نے ان کی ترقی کیلئے قانون سازی کی اور گریڈ18 تک ان کو کوٹہ دیا گیا کیونکہ یہ پسا ہوا طبقہ تھا، کچھ لوگ اس کے خلاف عدالت چلے گئے مگر سندھ سروس ٹریبونل نے ان کی اپیل رد کردی جس کے بعد یہ لوگ سپریمکورٹ چلے گئے لیکن سپریم کورٹ نے بھی 1995 والے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے مولا بخش بنام گورنمنٹ آف سندھ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اپیل خارج کردی اور وہی بات دہرائی کہ پی ای سی ایکٹ حکومتی ملازمین پر لاگو نہیں ہوتا اور کہا کہ پی ای سی کا کوئی اختیار نہیں کہ وہ سرکاری ملازمین کی ترقی کے معاملات میں دخل دے اور یہ بھی کہا کہ ایسی جگہیں جہاں پر پروفیشنل انجینئرنگ ورک ہوتا ہے وہاں صرف پی ای سی کے رجسٹرڈ افراد ہی تعینات ہوں (یاد رہے کہ سپریم کورٹ یہ واضح کر چکی ہے کہ گورنمنٹ کے اداروں میں پروفیشنل انجینئرنگ ورک نہیں ہوتا اور نہ ہی سرکاری ملازمین پر اس ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے) یہاں یہ بھی واضح کرنا ضروری ہے کہ بہت سے انجینئرنگ ٹیکنالوجی گریجویٹ کو پی ای سی بطور پروفیشنل انجینئرز رجسٹرڈ بھی کر چکی ہے مگر اب مبینہ طور پر وہ اس تعلیم کے حامل افراد کی مخالفت بھی کرتی ہے ان افراد کو اب نیشنل ٹیکنالوجی کونسل نے رجسٹرڈ کرنا شروع کردیا ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں سندھ گورنمنٹ جو کہ سپریم کورٹ میں فریق بھی تھی نے متعدد بی ٹیک انجینئرز کو 17 سے 18 گریڈ اور کچھ کو 18 سے 19 میں بھی پروموٹ کیا جبکہ ہمارے صوبہ پختونخوا میں حال ہی میں محکمہ آبپاشی میں اس ضمن میں کچھ قانون سازی ہوئی اور ایسے افراد جنہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منظور شدہ انجینئرنگ ٹیکنالوجی کی چار سالہ ڈگری کورس کے حصول کی بناء پر گریڈ17 میں ایس ڈی او/ اسسٹنٹ انجینئرز کے عہدے پر ترقی دی گئی کو گریڈ 18 میں ایکٹنشن اور ٹٰکنیکل آفیسرز وغیرہ کی پوسٹ پر پروموشن کے مواقع دیئے گئے مگر یہاں کچھ لوھ اس کے خلاف احتجاج کررہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم بی ٹیک انجینئرز کے گریڈ17 سے 18 کے حق کو تسلیم نہیں کرتے بقول بی ٹیک انجینئرز سیکرٹریٹ میں جونیئر کلرک اوراسسٹنٹ کی پوسٹ سے ڈپٹی سیکرٹری اور سیکرٹری کے عہدے پر ترقی کے مواقع دستیاب ہیں، ان کو یہ بھی شکوہ ہے کہ یہ لوگ ورکس ڈیپارٹمنٹ کے سب انجینئرز گریڈ16 اور نیچے کے گریڈ سے ترقی پا کر ایس ڈی او کے عہدے پر آنے والوں کو ٹیکنیشن کہتے ہیں جبکہ خود ان میں سے بہت سے افراد بطور سب انجینئرز بھرتی ہو کر بذریعہ کوٹہ ترقی پا چکے ہیں۔ بی ٹیک انجینئر ز سوال کرتے ہیں کہ کیا کہیں کوئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر کبھی بطور ڈسپنسر/ ٹیکنیشن بھرتی ہوا اور پھر بطور میڈیکل آفیسر ترقی پائی، ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ دنیا بھر میں بی ٹیک انجینئرز کو بی ایس سی انجینئرز کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ اس سلسلہ میں مختلف تجاویز سامنے آتی رہی ہیں جن کے مطابق ان بی ٹیک انجینئرز کو پبلک سروس کمیشن میں مقابلے کے امتحان میں بھی مساوی طور پر حصہ لینے کی اجازت ہونی چاہئے۔ حکومت کو یہ بھی فیصلہ کرنا ہوگا کہ کیا پی ای سی کو بھی دیگر غیر ضروری امور چھوڑ کر انجینئرنگ پروفیشن کو ریگولیٹ کرنے کی طرف دھیان دیتے ہوئے ملکی ترقی میں حکومت کا ساتھ دینا چاہئے۔ کسی بھی قانون کی تشریح کا اختیار صرف عدلیہ کے پاس ہے اور انتظامیہ قوانین پر عمل کرانے کی پابند ہے، قوانین کی من پسند تشریحات ملک میں انارکی پھیلانے کا موجب بن سکتی ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کو برداشت کرنا ہوگا، ہر طرح کے تعصب سے چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا، یہی ایک راز ہے ملکی ترقی کا، بی ٹیک انجینئرز کی فریاد ہم نے ان سطور کے ذریعہ حکومت کے سامنے رکھ دی ہیں، اگر پی ای سی کی طرف سے بھی کوئی مؤقف سامنے آتا ہے تو ہماری سطور حاضر ہیں تاہم اصل بات یہ ہے کہ ایسے تمام مسائل اور اختلافات باہم مل بیٹھ کر حل کرنے میں ہی سب کا بھلا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں