ڈیلٹا ویرینٹ وائرس ایک نئی آفت………

کورونا وائرس اپنی شکل تبدیل کرکے انسانوں پر بار بار حملہ آور ہو رہا ہے۔جب یہ وائرس شکل بدلتا ہے تو سائنس دان اس کا نیا نام رکھ دیتے ہیں،کورونا وائرس سب سے پہلے چین پر حملہ آور ہوا تھا،جہاں سے وہ پوری دنیا میں پھیل گیا۔جولائی 2021ء کے اختتام تک یہ وائرس 19 کروڑ 80 لاکھ انسانوں کو اپنی زد میں لے چکا تھا،جن میں سے 42 لاکھ لوگ آج اس دنیا میں نہیں ہیں۔
امریکہ میں سب سے زیادہ تباہی مچی ہے،جہاں 3 کروڑ 50 لاکھ اس وائرس کا شکار ہوئے اور 6 لاکھ سے زیادہ بدنصیب اپنے پیاروں کو سوگوار چھوڑ کر اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔امریکہ کے بعد ہندوستان میں متاثرین کی تعداد 3 کروڑ اور ہلاک ہونے والوں کی تعداد 4 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔
سائنس دانوں کی انتھک محنت کے بعد اس وائرس کے خلاف ویکسین تیار کر لی گئی،جس سے اس کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی واقع ہونے لگی۔

لوگوں نے اطمینان کا سانس لیا اور یہ امید اُبھرنے لگی کہ بہت جلد دنیا میں حالات معمول پر آجائیں گے۔عالمی معیشت میں بحالی کا عمل شروع ہو جائے گا،پابندیوں کا خاتمہ ہو گا اور زندگی کی خوشیاں دوبارہ لوٹ آئیں گی،لیکن خوشی اور اطمینان کی یہ کیفیت عارضی ثابت ہوئی اور کورونا وائرس نے اپنی شکل بدل کر پوری دنیا کو دوبارہ خوف زدہ کر دیا۔اس وائرس کو (Delta Variant) کا نام دیا گیا ہے،جس کا آغاز ہندوستان سے ہوا ہے۔

ڈیلٹا وائرس نے ہندوستان میں خوف ناک تباہی پھیلائی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس وائرس نے دنیا کے دیگر ملکوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا۔پاکستان،ہندوستان کا پڑوسی ملک ہے،یہاں اس وائرس کا آنا خارج از امکان نہیں تھا،تاہم ڈیلٹا وائرس نے امریکہ کو بھی اپنی زد میں لے لیا۔
امریکہ نے دنیا کی بہترین ویکسین تیار کی اور ہنگامی طور پر آبادی کی اکثریت کو حفاظتی ٹیکے (انجکشنز) لگا کر حالات پر قابو پا لیا اور وہاں زندگی کے معمولات بحال ہونے لگے،ماسک کی پابندیاں اٹھا لی گئیں اور لوگوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت مل گئی،تاہم ڈیلٹا ویرینٹ نے امریکہ پہنچ کر سب کی خوشیاں غارت کر دیں۔
امریکہ میں اب کورونا متاثرین کی یومیہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ چکی ہے اور اس میں مزید اضافہ متوقع ہے۔حکومت نے ماسک پہننے اور سماجی دوری برقرار رکھنے کی پابندی دوبارہ عائد کر دی ہے۔
بہت سے لوگوں کے لئے یہ امر باعث حیرت ہے کہ ڈیلٹا وائرس امریکہ پر اتنی شدت سے کیوں اثر انداز ہو رہا ہے،اس کی چند وجوہ ہیں۔ سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ امریکہ میں اب بھی 10 کروڑ لوگوں نے حفاظتی ٹیکے،یعنی ویکسین کے انجکشنز نہیں لگائے ہیں۔
ڈیلٹا وائرس برطانیہ میں بھی پہنچ چکا ہے اور لوگ دوبارہ اس کا شکار ہونے لگے ہیں۔ڈیلٹا وائرس انتہائی تیز رفتاری سے لوگوں کو متاثر کرتا ہے۔دوسرے الفاظ میں یہ کہہ لیں کہ اس وائرس کی منتقلی کی شرح بہت زیادہ ہے۔
تجربے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی بھی ملک میں جب تک 70 فیصد آبادی کو ویکسین کا ٹیکا نہیں لگایا جائے گا،اس وقت تک کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو کم کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
ویکسین کا ٹیکا لگانے کے ساتھ ساتھ ماسک پہننا اور سماجی فاصلہ برقرار رکھنا بھی انتہائی لازمی ہے ۔افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس حوالے سے ہماری کارکردگی کسی بھی حوالے سے اطمینان بخش نہیں ہے۔
ہم اربوں روپے کے غیر ضروری اخراجات کرتے ہیں،لیکن ویکسین کی خریداری پر چند ارب روپے خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔جو ویکسین مفت مل رہی ہے،وہی لوگوں کو مہیا کی جا رہی ہے۔
اگر ویکسین کا ٹیکا لگانے کی موجودہ رفتار یہی رہی تو پاکستان کی 70 فیصد آبادی کو ٹیکا لگانے میں کئی برس لگ جائیں گے،لہٰذا اب یہ امر ناگزیر ہو گیا ہے کہ حکومت فوری طور پر ویکسین خریدنے کا پائیدار عمل شروع کرے اور نجی شعبے کو بھی ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دے۔
ہر ملک خود کو ڈیلٹا ویرینٹ کے حملوں سے بچانے کی تگ و دو کر رہا ہے۔ہمارے ملک کے بڑے بینک اربوں روپے کا منافع کماتے ہیں،کیا انھیں اس بات کا پابند نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اربوں روپے کے منافع سے چند کروڑ روپے اپنے موجودہ اور سابق ملازمین کو ویکسین کی مفت سہولت فراہم کریں۔
ریلوے،پی آئی اے اور پاکستان اسٹیل جیسے ادارے مجموعی طور پر کھربوں روپے کا خسارہ کرتے ہیں،جنھیں حکومت پورا کرتی ہے۔ان اداروں کے ملازمین کے لئے ویکسین کے لئے چند کروڑ روپے خرچ کر دینے سے کون سی مالی قیامت ٹوٹ پڑے گی؟ اب آجائیں ایس او پیز کے معاملے پر،اگر لاک ڈاؤن کیا جائے تو دکان دار احتجاج کرتے ہیں،لیکن وہ نہ خود ماسک پہنتے ہیں اور نہ گاہک کو ایسا کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔اگر کورونا وائرس کے ابتدائی دور سے مستقبل کی پیش بندی کر لی جاتی تو ڈیلٹا ویرینٹ کے آنے سے ہمارے اندر اتنی گھبراہٹ اور بدحواسی کی کیفیت پیدا نہیں ہوتی۔
ڈیلٹا ویرینٹ وائرس کے بارے میں امریکہ کے سینٹر فارڈیزیز کنٹرول اینڈ پروٹیکشن کا کہنا ہے کہ کورونا کی ڈیلٹا قسم چیچک اور خسرے کی طرح انتہائی تیز رفتاری سے پھیلتی ہے۔
اس میں مبتلا انسان کم از کم 8 افراد کو بیمار کرنے کی وجہ سے بن سکتا ہے۔اس کی سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اس کی علامات زیادہ شدید نہیں ہوتیں،بلکہ زیادہ تر لوگ نزلے زکام اور ہلکے بخار میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
ڈیلٹا ویرینٹ اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ یہ وائرس ویکسین لگوانے والے لوگوں کو بھی بیمار کر سکتا ہے،البتہ جو لوگ ویکسین لگوا چکے ہوتے ہیں(یعنی دونوں ٹیکے) وہ ہسپتال میں داخل ہونے کے مرحلے تک نہیں پہنچتے اور ان کی موت کا خطرہ بھی انتہائی کم ہوتا ہے۔

ملک میں اس آگہی کو عام کرنا حکومت اور ذرائع ابلاغ کی بنیادی ذمے داری ہے کہ اگر انھوں نے حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے،ماسک کے استعمال سے گریز کیا اور سماجی دوری اختیار کرنے میں غفلت برتی تو ڈیلٹا ویرینٹ چیچک اور خسرے کی طرح تمام آبادیوں میں پھیل جائے گا اور جب لوگ زیادہ بیمار ہوں گے تو ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو گا۔ایسا ہونے کی صورت لوگ کام پر نہیں جا سکیں گے،انھیں علاج پر زیادہ رقم خرچ کرنا پڑے گی اور وہ روزگار سے بھی محروم ہو جائیں گے۔

اب وقت آگیا ہے کہ لوگوں کو ترغیب دینے کے ساتھ ایسے فیصلے بھی کیے جائیں کہ لوگوں کے پاس ویکسین لگوانے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو۔ حالیہ دنوں میں چند ایسے اقدامات کیے گئے ہیں،جن کے بہتر نتائج نکلے ہیں اور لوگ بڑی تعداد میں ویکسی نیشن مراکز کا رُخ کر رہے ہیں، تاہم ہمیں ”بحران ٹالنے“ کی حکمت عملی بدلنی ہو گی۔حکومت بڑی مقدار میں ویکسین خریدنے کی کوشش کرے،تاکہ ملک میں ویکسین کی کمی واقع نہ ہو سکے۔
اس حقیقت سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا کہ ڈیلٹا ویرینٹ کی شدت میں کمی آئے گی،تب ہی معیشت کا پہیا چلے گا اور لوگ بے روزگار ہونے سے بچیں گے۔
ہم کورونا وائرس،بالخصوص اس ڈیلٹا نامی نئی قسم سے نمٹنے کے لئے کتنے سنجیدہ ہیں،اس کا فیصلہ بیانات سے نہیں،بلکہ اس امر سے ہو گا کہ ملک میں ویکسی نیشن کی شرح کیا ہے اور ماسک سمیت دیگر حفاظتی اقدامات پر ہم سب کتنے موٴثر انداز میں عمل کر رہے ہیں:
منیر اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ

کیٹاگری میں : صحت

اپنا تبصرہ بھیجیں