ملک کے بعض علاقوں میں 58 فیصد افراد بلڈ پریشر میں مبتلا، واکنگ فرینڈلی ماحول نہیں، ماہرین صحت

ملک کے بعض علاقوں میں 58 فیصد افراد بلڈ پریشر میں مبتلا، واکنگ فرینڈلی ماحول نہیں، ماہرین صحت

ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی پرو وائس چانسلر پروفیسر زرناز واحد نے کہا ہے کہ پاکستان میں بلند فشار خون کی شرح بہت زیادہ ہے بعض علاقوں میں تو یہ مرض 58 فیصد تک پایا جاتا ہے جبکہ بلڈ پریشر پر کنٹرول کی شرح صرف تین فیصد ہے۔

انھوں نے یہ بات گذشتہ روز ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیر اہتمام سول اسپتال کے شعبہ امراض قلب میں عالمی یوم بلند فشار خون کے سلسلے میں ہونے والے سیمینار سے بہ طور مہمان خصوصی خطاب میں کہی۔

زرناز واحد نے کہا کہ اس کی وجہ پاکستان میں “واکنگ فرینڈ لی” ماحول نہیں، مہنگے ترین علاقوں میں نہ تو جاگنگ ٹریک بنانے پر توجہ دی جاتی ہے، اور نہ واکنگ یا سائیکلنگ کے لیے جگہ مختص کی جاتی ہے۔

امراض قلب کے علاج اور دواؤں پر جو سالانہ اخراجات کیے جاتے ہیں اتنے اخراجات اگر فٹ پاتھ کو واکنگ فرینڈ لی بنانے اور چھوٹے چھوٹے پارکس میں اچھے جاگنگ واکنگ ٹریک بنانے پر خرچ کردیئے جائیں تو امراض قلب کے علاج کی ضرورت ہی نہ پڑے۔

ملک کے بعض علاقوں میں 58 فیصد افراد بلڈ پریشر میں مبتلا، واکنگ فرینڈلی ماحول نہیں، ماہرین صحت

قبل ازیں بلند فشار خون کے بڑھتی شرح کو کم کرنے کے لیے واک کی اہمیت اجاگر کرنے کےلیے علامتی واک بھی کی گئی۔

سیمینار سے سول اسپتال کراچی کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پروفیسر اکرم سلطان، سابق ایم ایس سول اسپتال ڈاکٹر نور محمد سومرو، ڈاکٹر نواز لاشاری، ڈاکٹر طارق فرمان، پروفیسر عبد الرشید جبکہ پروفیسر اسحاق کا ویڈیو پیغام بھی سنایا گیا۔ 

پروفیسر زرناز واحد نے کہا کہ بڑے بڑے امراض قلب کے قومی اداروں کا کروڑوں روپے کا بھاری بجٹ طرز زندگی کی تبدیلی پر خرچ کیا جائے تو یہ بڑے اخراجات ختم ہو جائیں گے۔ بچپن سے ہی غذائی عادات متوازن رکھی جائیں تو بڑے ہو کر دل کی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔

پروفیسر نور محمد سومرو نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ سول اسپتال کےامراض قلب کے شعبے میں نئی انجیو گرافی مشین لائی جا رہی ہے، حکومت سندھ کے محکمہ صحت نے سول اسپتال کے شعبہ امراض قلب کے لیے 11 سو ملین ( یعنی ایک ارب 10 کروڑ) روپے منظور کیے ہیں۔ جس سے نئی مشینوں کی خریداری کے علاوہ پرانے آلات اور مشینوں کو دوبارہ قابل استعمال بنایا جائے گا۔

شعبہ امراض قلب میں انجیوگرافی وارڈ کو “اسٹیٹ آف دی آ رٹ “بنا دیا جائے گا۔ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر پروفیسر ا کرم سلطان نے کہا کہ 1989 میں سول اسپتال کے شعبہ کارڈیالوجی سے انٹرن شپ سے کیریئر کا آغاز کیا، اب خواہش ہے کہ شعبہ کارڈیالوجی کو جدید تقاضوں کے مطابق بنا کر امراض قلب کے مریضوں کے لئے آسانیاں پیدا کی جائیں۔

ہیڈ آ ف کارڈیالوجی سول اسپتال پروفیسر نواز لاشاری نے کہا کہ جلد ہی سول اسپتال کا کارڈیالوجی وارڈ ایک انسٹیٹیوٹ میں تبدیل ہو جائے گا۔

پاکستان ہائپرٹینشن لیگ کےجنرل سیکریٹری پروفیسر عبدالرشید نے کہا کہ عالمی یوم بلند فشار خون کی اس سال کی تھیم ہے کہ بلڈپریشر کی پیمائش کریں اور صحت مند رہیں۔

یعنی اگر بلڈ پریشر دو ایم ایم بڑھتا ہے تو سمجھیں کہ آپ چار فیصد موت کی طرف بڑھ رہے ہیں، بلڈ پریشر کو خاموش قاتل اس لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی علامات نہیں ہوتیں۔ پاکستان میں 30 فیصدافراد کو اپنے مرض کا علم ہوتا ہے جبکہ 70 فیصد اپنے مرض سے لاعلم ہوتے ہیں۔ یہی وجہ کہ ایسے افراد کو ہارٹ اٹیک، اسٹروک، گردوں کے امراض لاحق ہو جاتے ہیں جو مرتے دم تک رہتے ہیں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے پروفیسر طارق فرمان نے کہا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کے پوش ترین علاقے میں جہاں لوگ زیادہ پیسے خرچ کرکے رہائش اختیار کرتے ہیں وہاں بھی واکنگ ،جاگنگ اور سائیکلنگ فرینڈلی ماحول نہیں ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحت مند رہنا ہماری ترجیح نہیں، دولت ہماری ترجیح ہے۔ جب کہ ہم دو لت سے دوائی تو خرید سکتے ہیں صحت نہیں، ہمیں بطور قوم اس ذہنی رجحان کو تبدیل کرنا ہوگا۔

کم پیسے خرچ کر کے صحت برقرار رکھنے والی طرز زندگی چھوڑ کر مہنگے طرز زندگی کی طرف جائیں تو زیادہ پیسے خرچ کرکے دوائیں اور علاج تو کرسکتے ہیں۔ مہنگا طرز زندگی اختیار کر کے ہم صحت مند نہیں ہو سکتے۔

تقریب کے آخر میں میں پرو وائس چانسلر پروفیسر زرناز واحد نے تمام مہمانوں کو اعزازی شیلڈز دیں۔

کیٹاگری میں : صحت

اپنا تبصرہ بھیجیں